لیون ٹراٹسکی
سوشلزم کے تحت آرٹ کی عمومی حرکیات
جب انقلابی آرٹ کی بات کی جاتی ہے تو اس سے دو طرح کے مظاہر مراد ہوتے ہیں: ایسی تصانیف جن کے موضوعات براہِ راست انقلاب کی عکاسی پر مبنی ہوتے ہیں اور ایسی تصانیف جو اپنے موضوع میں تو انقلاب سے وابستہ نہیں ہوتیں لیکن انقلاب سے سرشار اور اس سے جنم لینے والے نئے شعور سے رنگی ہوتی ہیں۔ یہ مظاہر بالکل مختلف خطوط پر استوار ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ اپنی تصنیف ’قتل گاہ تک کا راستہ‘ میں الیگزی ٹالسٹائی نے جنگ اور انقلاب کے عرصے کو بیان کیا ہے۔ وہ لیو ٹالسٹائی کے امن پسند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے لیکن اُس کا نقطہ نظر بہت محدود ہے۔ اور جب وہ اس محدود نقطہ نظر سے انتہائی دیوہیکل اور عظیم حجم کے حامل واقعات کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بے رحم یاد دہانی ہی کرواتا ہے کہ اُس کا مکتبہ فکر قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ دوسری طرف ایک نوجوان شاعر تیخونوف‘ انقلاب کے بارے میں لکھے بغیر ایک چھوٹے سی کریانے کی دُکان کے بارے میں لکھتا ہے (شاید وہ انقلاب کے بارے میں لکھنے سے شرماتا ہے) تو اس کے جمود کی عکاسی ایسی تروتازہ اور جوش بھری قوت سے کرتا ہے جو صرف ایسا شاعر ہی کر سکتا ہے جسے ایک نئے عہد کی حرکیات نے تخلیق کیا ہو۔ لہٰذا انقلاب کے بارے میں تحریریں اور انقلابی آرٹ کی تحریریں اگرچہ ایک چیز نہیں ہیں لیکن ان میں کچھ مشترک نکات پائے جاتے ہیں۔ انقلاب نے جو فنکار تخلیق کیے ہیں وہ انقلاب کے بارے میں بات کرنے کی چاہت کے بنا رہ ہی نہیں سکتے۔ دوسری طرف ہر وہ آرٹ جو انقلاب کی بات کرنے کی چاہت سے لبریز ہو گا، ناگزیر طور پر پرانے نقطہ نظر کو مسترد کرے گا۔ چاہے یہ ایک نواب کا نقطہ نظر ہو یا ایک کسان کا۔
ابھی تک کوئی انقلابی آرٹ نہیں ہے۔ اِس آرٹ کے عناصر موجود ہیں ۔ اس کے اشارے موجود ہیں۔ اس کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ایک انقلابی انسان موجود ہے جو نئی نسل کو اپنے عکس پر ڈھال رہا ہے اور جسے انقلابی آرٹ کی ضرورت زیادہ سے زیادہ ہے۔اس آرٹ کو اپنا اظہار کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ کیونکہ یہ عمل غیرمحسوس اور ناقابل شمار ہے اور ہم تو واضح اور قابلِ محسوس سماجی عوامل کے بارے میں بھی اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ آرٹ یا کم از کم اس کی پہلی لہر اُس نوجوان نسل کے تخلیق کردہ آرٹ کی صورت میں جلد نہیں آ سکتی جو انقلاب میں پیدا ہوئی اور جو اسے آگے بڑھا رہی ہے؟
انقلابی آرٹ، جو ناگزیر طور پر انقلابی سماجی نظام کے تمام تضادات کا اظہار کررہا ہوتا ہے، کو سوشلسٹ آرٹ کیساتھ گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے جس کی بنیادیں ہی ابھی موجود نہیں ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ سوشلسٹ آرٹ اِس عبوری عہد کے آرٹ میں سے ہی برآمد ہو گا۔
یہ فرق روا رکھنے پر اصرار کرتے ہوئے ہم کسی تجریدی منصوبے کی پیروی نہیں کر رہے ہیں۔ فریڈرک اینگلز نے بلاوجہ ہی سوشلسٹ انقلاب کو ضرورت کی دنیا سے آزادی کی دنیا کی طرف عظیم چھلانگ قرار نہیں دیا تھا۔ لیکن یہ انقلاب خود کوئی آزادی کی دنیا نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ’’ضرورت‘‘ کے خدوخال کو ہر ممکنہ حد تک نکھار رہا ہے۔ انہیں واضح کر رہا ہے۔سوشلزم طبقات کیساتھ ساتھ طبقاتی تضادات کا بھی خاتمہ کر دے گا۔ لیکن انقلاب تو طبقاتی جدوجہد کو اپنے عروج تک لے جاتا ہے۔ انقلابی عہد میں صرف وہی لٹریچر ضروری اور ترقی پسند ہوتا ہے جو استحصالیوں کے خلاف محنت کشوں کی جڑت اور مضبوطی کو تقویت دے۔ انقلابی لٹریچر (استحصالی طبقات کے خلاف) سماجی نفرت سے ہی لبریز ہو سکتا ہے۔ نفرت، جو پرولتاری آمریت کے عہد میں ایک تاریخی تخلیقی عنصر ہوتی ہے۔ لیکن سوشلزم کے تحت سماج کی بنیاد یکجہتی ہو گی۔ فی الوقت وہ تمام جذبات جن کا نام لینے سے بھی ہم انقلابی خائف ہیں، سوشلسٹ شاعری کے زور آور راگ ہوں گے۔مثلاً بے لوث دوستی، ہمسائے سے محبت، ہمدردی وغیرہ۔
سوشلزم اور مسابقت
لیکن کیا یکجہتی کی زیادتی انسان کو ریوڑ کا مجہول جانور نہیں بنا ڈالے گی؟ بالکل نہیں۔ مسابقت (Competition) کی طاقتور قوت، جو سرمایہ دارانہ سماج میں منڈی کے مقابلے کا کردار اختیار کرتی ہے، ایک سوشلسٹ سماج میں ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ ایک بلندتر اور زرخیز شکل اختیار کر لے گی۔ اپنے موقف، اپنے منصوبے، اپنے ذوق کا مقابلہ ہو گا۔ جہاں طبقات نہیں ہوں گے وہاں سیاسی کشمکش بھی نہیں ہو گی اور آزادی حاصل کر لینے والی امنگیں تکنیک و تعمیر کا رُخ اختیار کریں گی جس میں آرٹ بھی شامل ہے۔ آرٹ زیادہ عام ہوگا، بڑھوتری اور بلوغت حاصل کرے گا اور ہر شعبے میں زندگی کی بتدریج تعمیر کا سب سے کامل طریقہ کار بنے گا۔ یہ وہ آرٹ نہیں ہو گا جو کسی چیز سے تعلق کے بغیر محض ’’خوبصورت‘‘ ہوتا ہے۔
زراعت، رہائش کی منصوبہ بندی، تھیٹروں کی تعمیر، بچوں کی سماجی تعلیم کے طریقے، سائنسی مسائل کا حل، نئے اندازوں کی تخلیق… غرضیکہ زندگی کے تمام رنگ اور تمام شکلیں ہر کسی کو اپنے اندر سمو لیں گی۔ نئی دیوہیکل نہر، صحرا میں نخلستانوں کی تقسیم (ایسے سوالات بھی موجود ہوں گے) ، موسم اور ماحولیات کی ریگولیشن، نئے تھیٹر، کیمیائی مفروضے، موسیقی میں مدمقابل رجحانات اور کھیلوں کے بہترین نظام جیسے سوالوں پر لوگ ’’پارٹیوں‘‘ میں تقسیم ہوں گے۔ لیکن یہ پارٹیاں کسی طبقے یا مراعت یافتہ پرت کی لالچ سے زہر آلود نہیں ہوں گی۔ تمام لوگوں کو تمام لوگوں کی کامیابی سے غرض ہو گی۔ منافعوں کی دوڑ نہیں ہو گی۔ کمینگی، دھوکہ بازی، رشوت جیسی چیزیں نہیں ہوں گی جو طبقاتی سماج میں ’’مقابلہ بازی‘‘ کی روح ہوتی ہیں۔ لیکن اس سے مقابلہ اور جدوجہد کسی طور بھی کم دلچسپ، کم ڈرامائی اور کم پرجوش نہیں ہو گی۔
اور چونکہ ایک سوشلسٹ سماج میں تمام مسائل تمام لوگوں کے دائرہ اختیار میں ہوں گے لہٰذا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اجتماعی دلچسپیاں اور ولولے اور انفرادی مسابقت کی وسعت وسیع تر اور مواقع لامحدود ہوں گے۔ لہٰذا آرٹ کیلئے بھی مضطرب اجتماعی توانائی کے دھماکوں اور اشتراکی روحانی تحریکوں کی کچھ کمی نہ ہوں گی جو نئے فنی رجحانات اور تحریر و تقریر کے نئے اسلوبوں کی تخلیق کی جانب گامزن ہوں گے۔ یہ جمالیاتی مکاتبِ فکر ہوں گے جن کے گرد ’’پارٹیاں‘‘ مجتمع ہوں گی۔ ایسی بے لوث اور شدید مسابقت، جو مسلسل بلند ہوتی ہوئی تہذیب میں جنم لے گی، کے تحت بے چینی کی بیش قیمت بنیادی خاصیت کیساتھ انسانی شخصیت نشونما پائے گی اور اس کا ہر پہلو نکھرے گا۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس اندیشے کی کوئی وجہ نہیں کہ ایک سوشلسٹ سماج میں انفرادیت زوال پذیر ہو جائے گی یا آرٹ مفلسی کا شکار ہو جائے گا!
آرٹ، تکنیک اور فطرت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مستقبل میں شہری باغیچوں، ماڈل گھروں، ریلوے لائنوں اور بندگاہوں کی منصوبہ بندی جیسے دیوہیکل کاموں میں صرف انجینئر اور مقابلوں میں حصہ لینے والے ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی گہری دلچسپی لیں گے۔ اور جوں جوں ہم آگے بڑھیں گے یہ بات اسی قدر سچ ہوتی جائے گی۔ نسل در نسل، اینٹ در اینٹ غیر محسوس انداز میں چیونٹیوں کی طرح ایک دوسرے پر چڑھ جانے والے گھروں اور سڑکوں کی جگہ منصوبہ بندی سے زبردست شہری دیہات تعمیر کیے جائیں گے۔ اسی منصوبہ بندی کے گرد حقیقی عوامی پارٹیاں تشکیل پائیں گی۔ مستقبل کی یہ پارٹیاں پرجوش ایجی ٹیشن کریں گی، جلسے کریں گی، ووٹ ڈالیں گی۔ اس جدوجہد میں آرکیٹیکچر ایک بار پھر عوامی مزاجوں اور احساسات کے جذبے سے سرشار ہو جائے گا۔ لیکن اب کی بار ایسا بلند تر پیمانے پر ہو گا۔ انسانیت اپنی تربیت یوں کرے گی گویا ہر چیز کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کے دیکھ اور پرکھ سکتی ہو۔ اسے عادت پڑ جائے گی کہ دنیا کو چکنی مٹی کے طور پر دیکھے اور اس مٹی سے وہ زندگی کی سب سے کامل شکلوں کے مجسمے بنائے۔ آرٹ اور صنعت کے درمیان حائل دیوار ڈھے جائے گی۔ مستقبل کا عظیم سٹائل ‘ زیبائشی اور آرائشی نہیں بلکہ اثر پذیر ہو گا جو انسانی شخصیت کی تشکیل اور بڑھوتری میں کردار ادا کرے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تکنیک کو راستہ دینے کے لئے آرٹ کو تحلیل کر دیا جائے گا۔
آئیے جیبی چاقو کی مثال لیتے ہیں۔ آرٹ اور تکنیک کا امتزاج دو بنیادی خطوط پر استوار ہو سکتا ہے۔ یا تو آرٹ چاقو کو سجا سکتا ہے اور اس کے ہینڈل پر ہاتھی، خوبصورت دوشیزہ یا ایفل ٹاور وغیرہ کی تصویر بنا سکتا ہے۔ یا پھر آرٹ چاقو کی کوئی ’’آئیڈیل‘‘ شکل ڈھونڈنے میں تکنیک کی مدد کر سکتا ہے۔ کوئی ایسی شکل جو چاقو کے میٹریل اور مقصد سے بھرپور مطابقت رکھتی ہو۔ یہ سوچنا غلط ہے کہ یہ مسئلہ خالصتاً تکنیکی طریقہ کار سے حل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مقصد اور میٹریل بے شمار صورتوں کی اجازت دیتے ہیں۔ ’’آئیڈیل‘‘ چاقو بنانے کے لئے میٹریل کی خاصیتوں اور اس کے استعمال کے طریقوں کیساتھ ساتھ تخیل اور ذوق دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ صنعتی ثقافت کے سارے رجحان کے پیش نظر ہمارا خیال ہے کہ مادی اشیا کی تخلیق میں جمالیاتی تخیل کا رُخ چیز کو بطور چیز ایک آئیڈیل شکل دینے کی طرف ہو گا۔ نہ کہ خود کو جمالیاتی خراج دینے کے لئے چیز کی سجاوٹ کی طرف۔ اگر یہ بات جیبی چاقو کے لئے درست ہے تو لباس، فرنیچر، تھیٹروں اور شہروں کے لئے اس سے بھی زیادہ درست ہے۔ اس کا مطلب ’’مشین کے بنائے آرٹ‘‘ سے جان چھڑانا نہیں ہے۔ انتہائی بعید مستقبل میں بھی نہیں۔ لیکن آرٹ اور تکنیک کی تمام شاخوں کے درمیان اشتراک انتہائی اہمیت اختیار کر جائے گا۔
اس کا کیا مطلب ہے کہ صنعت‘ آرٹ کو اپنے اندر سمو لے گی یا پھر آرٹ‘ صنعت کو اپنے ساتھ بلندی کی انتہاؤں پر لے جائے گا؟اس سوال کا جواب دونوں طرح سے دیا جا سکتا ہے۔ انحصار اس بات پر ہے کہ مسئلے کو صنعت کی طرف سے دیکھا جاتا ہے یا آرٹ کی طرف سے۔ دونوں جوابات میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ دونوں صنعت کے جمالیاتی معیار اور وسعت کے دیوہیکل پھیلاؤ کی پیش بینی کرتے ہیں۔ اور یہاں ہم جانتے ہیں میکانکی اور برقی زراعت بھی صنعت کا ہی حصہ بن جائے گی۔
لیکن صرف آرٹ اور صنعت کے درمیان حائل دیوار ہی نہیں بلکہ آرٹ اور فطرت کے درمیان حائل دیوار بھی ساتھ ہی گر جائے گی۔ اُس طرح نہیں جیسے روسوؔ نے کہا تھا کہ آرٹ‘ فطرت کے قریب آ جائے گا۔ بلکہ فطرت زیادہ ’’مصنوعی‘‘ ہو جائے گی۔ پہاڑوں، دریاؤں، کھیتوں، سبزہ زاروں، لق و دق میدانوں، جنگلوں اور ساحلوں کی موجودہ تقسیم کوئی حتمی نہیں ہے۔ انسان فطرت کے نقشے میں ایسی تبدیلیاں کر چکا ہے جو کچھ کم نہیں ہیں اور معمولی بھی نہیں ہیں۔ لیکن مستقبل کے مقابلے میں یہ شاگردوں کی مشق کے مترادف ہیں۔ مذہب تو پہاڑوں کو ہلانے کا وعدہ ہی کرتا ہے لیکن ٹیکنالوجی واقعی پہاڑوں کو کاٹ کے ہلا سکتی ہے۔ اب تک تو ایسا محض صنعتی مقاصد (کان کنی) یا ریلوے (سرنگیں) کے لئے ہی ہوتا آیا ہے۔ لیکن مستقبل میں یہ انتہائی بڑے پیمانے پر مجموعی صنعتی اور فنی منصوبے کے تحت کیا جائے گا۔ انسان پورے انہماک اور تسلسل سے فطرت کو بہتر بنائے گا۔ آخر کار وہ پورے کرہ ارض کو ہی دوبارہ تعمیر کر چکا ہو گا۔ یہ تعمیر نو اگر اُس کے اپنے عکس پر نہیں ہو گی تو کم از کم اُس کے ذوق کے مطابق ضرور ہو گی۔ اور ہمیں ذرہ برابر ڈر نہیں ہے کہ اُس کا ذوق کچھ برا ہو گا۔
مایاکووسکی کیساتھ لڑائی میں کلیوف کہتا ہے کہ ’’گیت تخلیق کرنے والے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ مشینوں کی بات کرے‘‘ اور یہ کہ ’’کسی اور بھٹی میں نہیں بلکہ دِل کی بھٹی میں ہی زندگی کا ارغوانی سونا پگھلتا ہے۔‘‘ ایونوف رازومنک بھی لڑائی میں ٹانگ اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہتھوڑے اور مشین کی شاعری، جو مایاکووسکی کرتا ہے، ایک عارضی داستان ہے۔ لیکن ’’خدا کی زمین‘‘ کی شاعری تو ’’دنیا کی ابدی شاعری ہے۔‘‘یہاں زمین کو شاعری کا ابدی اور مشین کو عارضی ماخذ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن زمین اور مشین میں یہ فرق روا رکھنا غلط ہے۔ زمین کی شاعری بھی ابدی نہیں بلکہ تغیر پذیر ہے۔ انسان نے اپنے اور زمین کے درمیان اوزار، جو ابتدائی شکل کی سادہ مشینیں تھے، رکھنے کے بعد ہی روانی سے گیت گانا شروع کیے تھے۔ درانتی، ہل اور کھرپے کے بغیر جدید زرعی جینیات ممکن نہیں تھی۔ سوشلسٹ سماج کا انسان مشین کے ذریعے ساری فطرت کو اپنے تابع کرے گا۔ وہ پہاڑوں اور گزرگاہوں کی جگہ کا انتخاب کرے گا۔ دریاؤں کے رُخ موڑے گا۔ سمندروں کے قوانین کا تعین کرے گا۔ ظاہر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے کرہ ارض پر چوکھٹے لگا دئیے جائیں گے یا جنگلات کو پارکوں اور باغات میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ جھاڑیاں اور جنگل اور تیتر اور چیتے رہیں گے ۔ لیکن صرف وہاں جہاں انسان انہیں رکھنا چاہے گا۔ اور انسان یہ سب کچھ اتنی خوبصورتی سے کرے گا کہ اُنہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ وہ اس تبدیلی کو محسوس بھی نہیں کر سکیں گے اور پرانے وقتوں کی طرح ہی رہیں گے۔ مشین کی زمین سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ مشین زندگی کے میدان میں جدید انسان کا اوزار ہے۔ آج کا شہر ناپائیدار اور عارضی ہے۔ لیکن یہ واپس پرانے دیہات میں تحلیل نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس دیہات بلند ہو کے شہر کی سطح پر آ جائے گا۔ یہی بنیادی فریضہ ہے۔ شہر عارضی ہے لیکن یہ مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے اور راستہ دکھاتا ہے۔ آج کا دیہات قصہ ماضی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی جمالیات فرسودہ معلوم ہوتی ہیں۔ جیسے لوک آرٹ کے میوزیم سے لی گئی ہوں۔
خانہ جنگیوں کے عرصے سے انسانیت کہیں زیادہ غریب ہو کے نکلے گی۔ بھوک، غربت اور ہر طرح کی مانگ پر قابو پانے یعنی فطرت کو مسخر کرنے کی جدوجہد آنے والی دہائیوں کا غالب رجحان ہو گی۔ امریکہ کی طرح مشینی بہتری اور ترقی کا جوش و جذبہ ہر نئے سوشلسٹ سماج کے پہلے مرحلے کے ہمراہ ہو گا۔ فطرت سے بے عمل قسم کی لطف اندوزی آرٹ میں سے ختم ہو جائے گی۔ تکینک‘ جمالیاتی تخلیقات کو زیادہ طاقتور تحریک دے گی۔ اور بعد میں تکنیک اور فطرت کا تضاد خود ہی ایک بلند تر پیمانے پر حل ہو جائے گا۔
انسان کی تشکیلِ نو
اپنے معاشی نظام کو عقلی بنیادوں پر استوار کر نے، یعنی اسے شعور اور منصوبے سے بھرپور کر نے کے بعد انسان موجودہ بدبودار اور گلی سڑی گھریلو زندگی کا نام و نشان بھی نہیں چھوڑے گا۔ روٹی اور تعلیم کی فکر، جو آج کے خاندان کو کھائے جاتی ہے، سماجی پیش قدمی اور لامحدود اجتماعی تخلیق کے تحت ختم ہو جائے گی۔ عورت بھی آخر کار خود کو نیم غلامانہ حالات سے آزاد کروا سکے گی۔ نئی نسلوں کی ذہنی و جسمانی تربیت کے وسیع تر معنوں میں تعلیم بھی سماجی سوچ کی معراج کے طور پر تکنیک کے شانہ بشانہ اپنی جگہ بنائے گی۔ تدریسی نظاموں کی بحث کے گرد طاقتور ’’پارٹیاں‘‘ تشکیل پائیں گی۔ سماجی تعلیم کے تجربات اور مختلف طریقوں کی ایمولیشن ایسی سطح تک پہنچے گی جس کا پہلے تصور بھی محال تھا۔ کمیونسٹ زندگی بنا سوچے سمجھے خود بخود تشکیل نہیں پائے گی بلکہ شعوری طور پر تعمیر کی جائے گی، بار بار آزمائی جائے گی، پرکھی جائے گی، سمت کی تبدیلی اور درستی کے عمل سے گزرے گی۔ زندگی نامکمل نہیں رہے گی اور اسی لئے ساکن بھی نہیں رہے گی۔ انسان، جو دریاؤں اور چٹانوں کو ہلانا اور پہاڑوں کی اونچاؤں اور سمندروں کی گہرائیوں میں عوامی محلات بنانا سیکھ چکا ہو گا، اپنی زندگی میں نہ صرف کثرت، ذہانت اور شدت بلکہ اعلیٰ ترین درجے کا متحرک معیار بھی لائے گا۔ زندگی کا خول ابھی ٹھیک سے پکا نہیں ہو گا کہ نئی تکنیکی اور ثقافتی ایجادات اور کارناموں کے دباؤ سے پھر پھٹ پڑے گا۔ مستقبل کی زندگی یکسانیت کا شکار نہیں ہو گی۔
اس سے بھی بڑھ کر انسان خود اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے لگے گا۔ وہ اپنے اعضا کی حرکت کو حتی المقدور درستی اور نفاست دے کر خوبصورت بننے کو اپنا شغل بنائے گا۔ کام، چہل قدمی اور کھیل میں مقصدیت اور کفایت شعاری حاصل کرے گا۔ پہلے اپنے جسم کے نیم شعوری اور پھر تحت الشعوری عوامل جیسے دورانِ خون، تنفس، انہضام اور تولید کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور کچھ ضروری حدود میں انہیں منطق اور منشا کے ماتحت لانے کی سعی بھی کرے گا۔ یوں خالصتاً حیاتیاتی زندگی بھی اجتماعی تجربات کا موضوع بن جائے گی۔ اب تک ارتقا کے عمل سے نتھری ہوئی بنی نوع انسان ایک بار پھر بنیادی تبدیلی کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی اور اپنے ہی ہاتھوں میں منصوعی چناؤ اور ذہنی و جسمانی تربیت کے انتہائی پیچیدہ طریقوں کا اوبجیکٹ بن جائے گی۔ یہ ارتقا کے عین مطابق ہے۔ انسان نے سب سے پہلے بربریت کے معمول کو سائنسی تکنیک اور مذہب کو سائنس سے تبدیل کر کے پیداوار اور نظرئیے میں سے جہالت کے عناصر کو نکال باہر کیا۔ بعد ازاں اُس نے بادشاہت اور طبقے کا خاتمہ پہلے جمہوریت اور پارلیمانیت اور پھر واضح اور کھلی سوویت آمریت سے کر کے سیاست میں سے لاشعور کو نکال پھینکا۔ اندھے عناصر سب سے مضبوطی سے معاشی رشتوں میں رچے بسے ہوئے ہیں۔ لیکن معاشی زندگی کی سوشلسٹ تنظیم کے ذریعے انسان انہیں وہاں سے بھی نکال رہا ہے۔ اس سے روایتی خاندانی زندگی کی بنیادی تعمیر نو ممکن ہو گئی ہے۔ سب سے آخر میں خود انسان کی فطرت ہے، جو لاشعور کے گہرے اور تاریک ترین کونوں میں چھپی ہوئی ہے۔ کیا یہ واضح نہیں ہے کہ تحقیقی سوچ اور تخلیقی پیش قدمی کی عظیم ترین کاوشیں یہی رُخ اختیار کریں گی؟ اگر انسان نے بعد میں جینیاتی وراثت اور اندھے جنسی چناؤ کی اطاعت ہی کرنی ہوتی تو وہ دیوتا، بادشاہ اور سرمائے کے آگے جھکنا نہ چھوڑتا! آزاد انسان اپنے اعضا کو زیادہ متوازن کرنا چاہے گا۔ اپنی بافتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور نشونما کے درمیان مطابقت پیدا کرنا چاہے گا۔ تاکہ موت کے خوف کو کم کر کے اسے خطرے کے خلاف جسم کے معقول ردِ عمل تک محدود کر دے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کے اعضا اور بافتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور نشونما کے درمیان انتہائی عدم توازن موجود ہے۔ جو خطرے سے بچنے کی بنیادی جبلت کو بھی موت کے بیمار اور مجنونانہ خوف میں بدل دیتا ہے۔ یہی خوف عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اگلے جہاں کے ہر طرح کے احمقانہ اور ذلت آمیز واہموں کو پروان چڑھاتا ہے۔
انسان اپنا مقصد بنائے گا کہ اپنے احساسات کو مسخر کرے، اپنی جبلتوں کو شعور کی سطح تک بلند کرے، انہیں شفاف بنائے، اپنے عزم کی تاروں کو اپنی خلوتوں تک وسیع کرے اور یوں خود کو ایک نئی سطح تک اُٹھائے، ایک بلند تر حیاتیاتی نوع تخلیق کرے جسے آپ چاہیں تو ’سپرمین‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
یہ پیش بینی کرنا مشکل ہے کہ مستقبل کا انسان خومختیاری کی کن وسعتوں تک جائے گا یا اپنی تکنیک کو کن بلندیوں تک اُٹھائے گا۔ سماجی تعمیر اور نفسیاتی و جسمانی خود آموزی (Self Education) ایک ہی عمل کے دو پہلو بن جائیں گے۔ لٹریچر، ڈرامہ، مصوری، موسیقی، آرکیٹیکچر… تمام فنونِ لطیفہ اس عمل کو خوبصورت شکل عطا کریں گے۔ زیادہ درست طور پر بات کی جائے تو کمیونسٹ انسان کی تہذیبی تعمیر جس خول میں ملفوف ہو گی وہ ہم عصر آرٹ کے تمام عناصر کو انتہاؤں تک لے جائے گا۔ انسان کہیں زیادہ مضبوط، ذہین ، لطیف اور باریک بین بن جائے گا۔ اُس کا جسم زیادہ ہم آہنگ ہو گا۔ اُس کی حرکات زیادہ متوازن ہوں گی۔ اُس کی آواز زیادہ سریلی ہو گی۔ زندگی کی تمام شکلیں زیادہ متحرک اور ڈرامائی ہوں گی۔ ایک عام انسان بھی ارسطو، گوئٹے یا مارکس کی سطح تک بلند ہو جائے گا۔ اور ان چوٹیوں سے آگے نئے افق طلوع ہوں گے۔