ظہور عالم
مون سون کا آغاز ہوتے ہی پاکستان میں ایک بے یقینی، سراسیمگی اور خوف کی کیفیت برپا ہو جاتی ہے موسمی بارشوں سے تباہ کاری کے مختلف اندازے پہلے سے لگا لیے جاتے ہیں ٹی وی چینلوں پر چیخ چیخ کر بتایا جاتا ہے کہ محکمہ موسمیات نے آنے والے دنوں میں شدید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے اس لیے عوام اپنی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں لیکن حکومتی سطح پر شدید بارشوں سے ہونے والے نقصان سے بچاؤ کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے۔
ہر سال بارشوں کے موسم میں اس ملک کے شہر تالابوں کا منظر پیش کرتے ہیں اور دیہاتوں میں معمولی بارش سے بھی کچے گھروندے زمیں بوس ہو جاتے ہیں انفراسٹرکچر کی بدحالی اور ناہموار ترقی کا آسیب یہاں کئی زندگیوں کے خاتمے، املاک کی تباہی اور بیماریوں کا سبب بننے کے باوجود بھی اپنے بازو پھیلائے کھڑا ہے۔ اس خطے کی ’سیلابی تاریخ‘ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو سندھ طاس معاہدے کے بعد بننے والے نہری نظام کے بعد اور اس سے پہلے بھی سیلابی صورتحال موجود رہی ہے مگر 1992ء میں خطے میں آنے والا سیلاب سب سے بڑا تصور کیا جاتا تھا جس سے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں دو ہزار سے زائد لوگوں کی ہلاکت ہوئی تین ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوئے اور قریباً 12 ہزار دیہات لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے مٹی کے تودوں تلے دفن ہوئے اور پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تین سو لوگ ہلاک ہوئے اسی طرح 1995ء میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاؤں میں طغیانی ہوئی مگر بروقت بارش رک جانے سے بڑے پیمانے پر نقصان نہ ہوا۔ 2003ء میں مون سون کی بارشوں کے سبب آنے والے سیلاب میں صوبہ سندھ بری طرح متاثر ہوا جس سے 484 لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے اور 4 ہزار سے زائد دیہات اس سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔ 2007ء میں خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے علاقے سیلاب کی تباہ کاریوں کے زیر اثر آئے جس سے خیبر پختونخوا میں 152 لوگ ہلاک ہوئے اور لگ بھگ دو ہزار لوگ بے گھر ہوئے۔ اسی سیلاب میں بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں 815 لوگوں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ 2011ء میں سندھ میں سیلاب کے سبب 361 لوگ ہلاک ہوئے، 5 ملین سے زائد لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے اور 12 لاکھ گھروں کو نقصان پہنچا۔ ستمبر 2012ء میں بارشوں کے باعث سندھ، پختونخوا اور پنجاب میں 100 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے اور ہزاروں گھروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
2014ء میں پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور پنجاب میں بڑے پیمانے پر بارشوں اور دریائے جہلم و چناب میں طغیانی کی وجہ سے سیلابی صورتحال پیش آئی جس کے سبب سینکڑوں لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہزاروں افراد بے گھر ہوئے اور مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ 2020ء میں کراچی میں معمول سے زائد بارشوں اور ناقص نکاسی آب کے نظام کی وجہ سے کراچی میں سیلاب آیا جس سے 41 لوگوں کی ہلاکت ہوئی 7 سے زائد لوگ کرنٹ لگنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور کئی مکانوں کی چھتیں زمین بوس ہو گئیں۔ 2021ء میں اسلام آباد میں کلاؤڈ برسٹ کے باعث اسلام آباد کے کئی علاقے زیر آب آئے سڑکیں تالاب بن گئیں اور 5 سے زائد لوگوں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ اسی طرح رواں سال جون 2022ء میں مون سون کی بارشوں میں 903 افراد کی ہلاکت ہوئی اس کے علاوہ 191 بچوں کی ہلاکت کی رپورٹ ہے۔ اگست 2022ء میں سیلاب زدگان کی تعداد سب سے زیادہ ہے جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں صورتحال نہایت تشویشناک ہے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی اور لائیو سٹاک کا نقصان بھی ایک لاکھ سے زائد جانوروں کی ہلاکت کی صورت میں ہوا۔
سیلاب کی اس صورتحال میں کارپوریٹ میڈیا کا کردار انتہائی بے ہودہ ہے جو عمومی ادوار میں تو حکمران طبقے کا کاسہ لیس ہوتا ہی ہے مگر اس آفت زدہ گھڑی میں بھی حکمرانوں کی آپسی چپقلش کا ہی ترجمان نظر آتا ہے حکمران طبقے کے ایک دھڑے کے سیاسی کارکن کی گرفتاری پر میڈیا پہ ایک طوفان برپا ہے اس کے کھانے پینے کے لوازمات تک گنوائے جا رہے ہیں ٹاک شوز میں گرفتاری سے لے کر جیل اور جیل سے لے کر عدالت میں پیشی تک کا ہر لمحہ زیر بحث لایا جا رہا ہے مگر مجال ہے کہ سیلاب کے عذاب میں مبتلا عوام کا بھی کوئی ذکر اس رجعتی کارپوریٹ میڈیا نے کیا ہو اسی پس منظر میں ایک شعر ہے کہ:
وہ جو سیلاب کے نقصان کو رد کرتا ہے
کیسا بے رحم قلم کار ہے حد کرتا ہے
دوسری جانب سوشل میڈیا پر مختلف سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے دل دہلا دینے والی تصاویر اور ویڈیوز موصول ہو رہی ہیں جن میں لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں چادروں میں بند کر کے اٹھا رہے ہیں کوئی اپنی بانہوں پر کسی پیارے کا آخری سانسیں لیتا جسم اٹھائے ہے تو کوئی اپنے گھر کی زمین بوس چھت کے پاس بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔ پھول جیسے بچوں کے اجسام پر چیتھڑے اور کیچڑ میں لتھڑی لاشیں دورِ قدیم کی کسی بستی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ریسکیو کا عمل ادویات کی ترسیل، خوارک کی سپلائی یا عارضی خیموں کی فراہمی کے حکومتی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے عوام اپنی مدد آپ کے تحت یا غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے بڑے پیمانے کی اس تباہی سے نمٹنے کی سعی کر رہے ہیں۔ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے بنایا گیا ادارہ این ڈی ایم اے جس کا چیئرمین ایک سابق لیفٹنٹ جنرل ہے کی مراعات کا اگر ذکر کیا جائے تو دی نیشن اسلام آباد کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 636 ملین روپے اس ادارے کو دیے جاتے ہیں جس میں 126 ملین تنخواہوں کی مد میں دیے جاتے ہیں۔ این ڈی ایم اے کی آفیشل ویب سائٹ پر 20 اگست کی ایک خبر کے مطابق سیلاب متاثرین کے لیے ضروری امداد روانہ کی جا چکی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے متضاد ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے پر یہ بیان سامنے آیا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی امداد کے لیے ’مخیر حضرات‘ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں یعنی حکومتی سطح پر یہ حکمران کسی قسم کے اقدامات کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں حکومت کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لیے 25 ہزار فی خاندان امداد کا اعلان کیا گیا ہے جس رقم سے حکمران طبقے کی گاڑیوں کا ایک دن کا خرچ نہیں پورا ہوتا اس رقم سے ایک غریب محنت کش کے بھاری نقصان کا ازالہ کرنا مضحکہ خیز ہی ہے۔
حکمرانوں کی نااہلی بے حسی اور سنگ دلی کاا س سے بڑا کیا ثبوت ہو گا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے مقامی جاگیرداروں، وڈیروں اور زمینداروں سے وہ بند بھی ختم نہ کروا سکے جو انہوں نے خود کی زمین، فصل اور گھروں کو سیلابی پانی سے بچانے کی غرض سے تعمیر کر رکھے ہیں تاریخی طور پر نظام کی متروکیت کی وجہ سے یہاں کے حکمرانوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ رہا ہے یہاں کی سرمایہ داری بھی نیم جاگیرداری کی ایک شکل ہے حکمران طبقے کا اس سے گہرا رشتہ ہے ان کے مفادات ایک ہیں حکمرانوں کی اس بے حسی سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نظام میں اب مزید اصلاحات کی گنجائش نہیں رہی۔
محنت کش طبقہ گو کہ اس وقت مشکلات کے گرداب میں بری طرح پھنسا ہے لیکن اس کے لاشعور میں ایک نفرت اس حکمران طبقے کے خلاف پل رہی اور یہ نفرت جب اپنا اظہار کرے گی تو محنت کش طبقہ ان حکمرانوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو ان کے پر آسائش محلات میں سے نکال باہر کرے گا اور ایک نئی تاریخ کا آغاز کرے گا جس میں ذرائع پیداوار محنت کشوں کے اجتماعی تصرف میں ہوں گے جہاں انسان انسان کا دشمن نہ ہو گا وہی حقیقی سماج ہو گا اور وہی حقیقی انسانیت کی معراج ہو گی۔