عمر حیات
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان اور ہندوستان کی طرف سے 5 اگست 2019ء کو کئے گئے اقدامات میں کوئی فرق نہیں ہے۔
یہ دونوں اقدامات ان دوملکوں کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کو تقسیم کر کے، اپنے اپنے زیر ِقبضہ علاقوں کو اپنے ملکوں میں شامل کرنے کے مترادف ہے۔ اس منصوبے کا رونا عرصہ دراز سے رویا جا رہا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے اندر سے کی جانے والی منافقت اور قابض ممالک کی سہولت کاری کرنے والی قوتوں نے ان دونوں ملکوں کو اپنے عزائم کی تکمیل میں آسانیاں فراہم کر دی ہیں۔
ہندوستان کے زیر قبضہ علاقوں میں جب یہ سازش تیار کی جا رہی تھی یا اس کو عملی شکل دی جا رہی تھی تو اس وقت وہاں اقتدار کے مزے لوٹنے والے فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور ان جیسے غیر ملکی قو وں کے سہولت کار بظاہر آپس میں الجھ کر ریاست جموں کشمیر کی تقسیم کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ بالآخر وہاں ریاست کی شناخت ختم ہو گئی۔ اب یہ سارے رہنما دوبارہ مل کر پہلے سے بھی کم تنخواہ والی نوکری تلاش کر رہے ہیں۔
جب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سیاسی جماعتیں وہاں پر اپنی برانچیں قائم کر رہی تھیں تو وہاں کی قیادت اس عمل کی خاموش حمایت کر رہی تھی۔ اسی طرح پاکستان کے زیرانتظام ریاست جموں کشمیر کے اس حصے میں یہاں کے سہولت کاروں نے سردار قیوم خان، سردار ابراہیم خان کی صورت میں اپنے آقاؤں سے وظیفے اور اقتدار کی بھیک کے عوض یہاں کے عوام کے عزت نفس اور مفادات کا سودا کیا۔
ان کے بعد آنے والے لوگوں نے جن میں فاروق حیدر، عتیق خان اور سلطان محمود چوہدری جیسے لوگوں نے اس سہولت کاری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں جب اپنے حقوق کے لئے آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں تو وہاں پر جو سہولت کار پیدا ہوئے وہ بھی ایک بھیانک ترین عمل ہے۔
ایسے حالات میں ریاست جموں کشمیر کی آزادی پسند قوتیں بھی اس سارے عمل میں اپنا وہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہوئیں ہیں جو کردار حالات اور وقت ان سے تقاضا کر رہا تھا۔
ایسے حالات میں آزادی پسند اور انقلابی کارکنان کی جدوجہد کا سفر اور طویل ہوگیا ہے۔ آج بھی حالات اور وقت یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ان سہولت کاروں کی طرف دیکھنے یا ان کو اپنے ساتھ ملانے اور ان کے ساتھ مل کر کسی طرح کی کوئی جدوجہد کا سوچ کر مزید وقت اور توانائیاں ضائع کرنے کے بجائے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے اپنی سمت درست کر کے نئے عزم اور نئے انداز سے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔