عائشہ صدیقہ
پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بیان، جس میں انہوں نے نریندر مودی کو ’گجرات کا قصاب‘ قرار دیا، پر پاکستان میں ملا جلا رد عمل دیکھنے کو ملا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں کچھ لوگوں نے اگر اس بیان کا خیر مقدم کیا تو بعض دیگر لوگ زیادہ خوش نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بظاہر احمقانہ نظر آنے والا یہ بیان بلاول بھٹو زرداری نے سوچ سمجھ کر دیا ہے۔ اس بیان سے ثابت ہوا ہے کہ بھارت بارے پاکستان کی روایتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ شہباز شریف بھی اسی پالیسی پر گامزن ہیں جس پر عمران خان تھے۔
اس بیان کی کئی جغرافیائی وجوہات بھی ہیں اور یہ بیان ملکی سیاست سے بھی جڑا ہے۔ اس سے بھی اہم بات: اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اپنے قلیل المدتی اور طویل المدتی بنیاد پر کہاں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ ہر کسی نے اس پر جوش انداز سے اس بیان کا خیر مقدم نہیں کیا جس طرح نسیم زہرا نے کیا۔ نسیم زہرا کے بقول بلاول بھٹو کا بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان ہمیشہ اصولی موقف اپناتا ہے۔ محترمہ کے مطابق بلاول کی کارکردگی کا موازنہ محمد علی جناح کے اسرائیل پر 1947-48ء میں لئے گئے موقف سے کیا جا سکتا ہے۔
جو اس بیان سے ناخوش ہیں ان کے مطابق بھی بلاول بھٹو کے اس بیان کی مدد سے پاکستان کی نیشنل سیکورٹی پالیسی 2022ء کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس پالیسی کو غور سے پڑھنا چاہئے تب ہی سمجھ آئے گا کہ اس پالیسی میں بھی جیو سٹریٹیجک سے جیو اکنامکس کی جانب جانے کی بات محض ایک سراب ہے۔
قطع نظر اس بات کے کہ اس بیان سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوا یا ہندوستان کا کیا بگڑا، اسٹیبلشمنٹ میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس بیان کی مدد سے بھارت پر کاری وار کیا گیا جس کا مقصد اس بھارتی منصوبے کو ناکام بنانا تھا جس کے تحت اقوام متحدہ میں پاکستان کو بھارت میں مسلسل دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دلوانا تھا۔
وزیر خارجہ کے لئے جو بریف (Brief) تیار کیا گیا تھا اس کا مقصد تھا کہ بھارت کومنہ توڑ جواب دینا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ بھارت بھی دہشت گرد ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر پاکستان یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے ایسے ثبوت پیش کرنا ہوں گے جن کی مدد سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز کو قائل کیا جا سکے اور دہشت گردی کی بابت بحث کو آگے بڑھایا جا سکے۔
بھٹو زرداری اور ان کی ٹیم نے محنت سے بریف تیار کیا تھا۔ اس بریف کی بنیاد وہ پالیسی تھی جو، نواز حکومت کے خاتمے کے بعد، 2018ء سے چل رہی ہے۔ گو یہ افواہیں گشت کرتی رہی ہیں کہ جنرل باجوہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بنانا چاہتے تھے یا یہ توقع کہ وگرگوں معاشی حالات کے پیش نظر پاکستان دِلی کے ساتھ تعلقات کو شہہ دیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ پالیسی میں کسی قسم کا بدلاو نہیں آیا۔ یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ پالیسی میں 2008ء سے کوئی تبدیلی نہیں آئی جب جنرل کیانی فوج کے سربراہ تھے اور کہا جاتا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ تجارت کے خواہش مند تھے۔
بظاہر عمران خان کو ایک ایسے احمق کے طور پر پیش کیا گیا جس سے یہ فیصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ پڑوسی ملک بھارت سے انتہائی ضروری اشیا ئے خودر و نوش درآمد کرنی ہیں یا نہیں۔ یہ تاثر بھی قائم کیا گیا کہ عمران خان تذبذب کا شکار ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ پالیسی میں ہی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔
بھارت بارے پالیسی میں تبدیلی کی کوئی خواہش ہے نہ صلاحیت
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے ایک ملاقات کے دوران مجھے بتایا کہ سالہا سال سے بھارت نے پالیسی بدلی ہے نہ پاکستان نے۔ ان کے خیال میں نواز لیگ کے گذشتہ دور حکومت (2013-18ء) میں بھی کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ تمام تر بیان بازی کے باوجود نواز شریف اندرون ملک متعلقہ حلقوں کو قائل نہیں کر سکے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل درانی نریندر مودی کے دورہ لاہور (2015ء) کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ دورہ نوٹنگی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ یہ پالیسی میں حقیقی تبدیلی کا آئینہ دار نہیں تھا۔ دوسری جانب، نواز شریف بھی اکیلے بھارت بارے پالیسی میں تبدیلی لانے کی غلطی نہیں کرنا چاہتے تھے۔
بلاول کے سخت بیان کی وجہ یہ تھی کہ سفارتی تعلقات میں اگر الزامات کا جواب الزامات سے دیا جائے تو زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد کو پیشگی احساس تھا کہ بھارت پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگائے گا لہٰذا بھارتی وزیر خارجہ کا جوابی بیان پہلے سے تیار تھا۔
مزید براں، دلی سے مزاکرات کی کوئی کوشش کامیاب ہو سکی ہے نہ کشمیر میں تبدیلیوں کے حوالے سے دلی نے کوئی مثبت اشارہ دیا ہے۔ گو ٹریک ٹو پالیسی کے ذریعے پاکستان کو یہ پیغام دیا جا چکا ہے کہ دلی میں چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو، بھارت کی کشمیر پالیسی تبدیل نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود پاکستان کا خیال ہے کہ وہ بھارت کو نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی بھی ہے کہ بھارت کو مجبور نہیں کیا جا سکتا، تو بھی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پالیسی میں تبدیلی کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔ تبدیلی بارے نہ تو کوئی فکر سوچ موجود ہے نہ انہیں اس میں کوئی فائدہ نظر آتا ہے۔
امریکہ کی نئی انڈو پیسیفک پالیسی میں بھارت کو دی گئی اہمیت یا کسی حد تک اس کی پاپولزم کے باوجود پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کی پوزیشن اتنی اچھی نہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے سے جان چھڑا لے۔ پاکستان بھارت کو بار بار یاد دلاتا رہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے۔
دلی کے نئے عالمی تعلقات کو مذاکرات کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ کے ساتھ بھارت کے نو قائم شدہ تعلقات کے ذریعے بھارت سے مذاکرات کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے تا کہ متنازعہ امور پر بات چیت ہو سکے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان اس طرح کی ملٹری لیٹرل تنظیموں کے ذریعے مسئلہ کشمیر اٹھا سکتا ہے۔ جس طرح کچھ سال پہلے لگ رہا تھا کہ اسے کشمیر پر موقف ترک کرنا ہو گا، شائد ایسا کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس طرح کی حکمت عملی سے فوری طور پر تو کچھ حاصل نہ ہو گا لیکن اپنا موقف ترک کرنے سے تو بہتر ہے۔
بلاول کا بیان پیپلز پارٹی کی سیاست آگے بڑھانے کے لئے تھا
پالیسی میں تسلسل پایا جاتا ہے سو نوجوان سیاستدان بلاول بھٹو زرداری اور ان کی جماعت پی پی پی نے سوچا کہ کیوں نہ اس کا فائدہ اٹھا کر مقبولیت حاصل کی جائے۔ بلاول بھٹو زرداری کے نانا اور سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی بھی یہی حکمت عملی تھی۔ 13 اکتوبر 1967ء کو برطانوی سفارت کار نکولس برنگٹن نے لندن بھجوائے گئے ایک مراسلے میں ذولفقار علی بھٹو بارے بات کرتے ہوئے انہیں ’کٹر قوم پرست‘ قرار دیا جس نے ’کشمیر پر سخت موقف اختیار کر رکھا ہے‘۔
سفارت کار کے مطابق بھٹو کا سخت موقف یہ ہے کہ ’کشمیر کے حل میں جلدی کی بجائے انتظار کیا جائے تا آنکہ عالمی سطح پر طاقت کا توازن بدل جائے‘۔ اسی قوم پرستی کی وجہ سے بھٹو راولپنڈی میں الیکشن جیتے اور 1970ء کے عام انتخابات میں ووٹ لئے۔ 2008ء کے بعد سے نواز لیگ کی نسبت پی پی پی نے بھارت بارے پالیسی پر زیادہ احتیاط برتی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ سے مدد کی زیادہ ضرورت ہے۔ 2011ء میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت بھارت کو موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دینا چاہتی تھی مگر احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ روایتی طور پر پیپلز پارٹی نواز لیگ کی نسبت زیادہ انڈیا سنٹرک رہی ہے۔ سوئے اتفاق کہ بلاول نے عین اسی روز پریس بریفنگ دی جس دن 51 سال پہلے ان کے نانا نے اقوام متحدہ میں ڈرامائی تقریر کی تھی۔ بلاول کے بیان کے پیچھے پاکستان کے سیاسی حالات کر فرما تھے۔
اس بیان سے بلاول بھٹو نے پنجاب میں کچھ سیاسی بنیاد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں پنجاب میں تھوڑی حمایت چاہئے تا کہ وہ مرکز میں حکومت بنا سکیں۔ فوج کے نئے سر براہ جنرل عاصم منیر اور ان کی ٹیم…جو اس وقت عمران خان سے نپٹنے میں مصروف ہے…نوجوان زرداری کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں بالخصوص اگر فوج کو لگے کہ شہباز شریف والا تجربہ کامیاب نہیں رہا اور پنجاب میں اب بھارت بارے منفی جذبات کم ہو رہے ہیں جبکہ نواز شریف بارے بھی فوج مسلسل تناو کا شکار ہے۔ بلاول کے بیان کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو بتانا تھا کہ وہ نوکری کرنے کو تیار ہیں۔
پنجاب سے اگر بلاول بھٹوزرداری کے اپنے صوبے، سندھ، یا دیگر علاقوں کی جانب جائیں تو اس بیان پر کم ہی کسی کو دلچسپی ہو گی کہ لوگ اپنے معاشی مسائل کے ہاتھوں پریشان ہیں۔
کیا بلاول بھٹو کو اس طرح کا سخت موقف اختیار کرنا چاہئے؟
کیا بلاول بھٹو کو اس طرح کا سخت موقف اختیار کرنا چاہئے؟ کیا ان کے لئے یہ بہتر نہیں کہ بطور سیاستدان اپنی تھوڑی سی آزادی برقرار رکھیں اور بالکل ہی اسٹیبلشمنٹ کے راستے پر نہ چل پڑیں؟ بھٹو کے انجام سے سبق سیکھنا چاہئے مگر ایک ایسے ماحول میں کہ جب فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت میں کوئی کمی نہ ہو رہی ہو تو ہر سیاسی جماعت یہی چاہے گی کہ روایتی فارمولا اپناو اور کسی تجربے سے گریز ہی کرو۔ گو بہت سے سمجھدار لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ بلاول کو ایسا سخت بیان نہیں دینا چاہئے تھا مگر سیاست کا تقاضہ تھا کہ ایسا بیان دیا جائے۔
اس بیان سے پاک بھارت تعلقات متاثر ہوں گے۔ شریف برادران اگر بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوئی کوشش کرنا چاہتے تھے تو وہ ممکن نہیں رہے گی۔ نواز شریف جب پاکستان واپس جائیں گے تو انہیں بھی اسی راستے پر چلنا ہو گا۔
(بشکریہ: دی پرنٹ۔ ترجمہ: ایف ایس)