پرویز امیر علی ہود بھائی
’کیا بلوچستان میں وہ لوگ کتابیں پڑھتے ہیں‘؟ میرے لاہوری دوست نے بے یقینی کے عالم میں پوچھا۔
اکثر پاکستانیوں کی طرح میرے دوست کی نظر میں بھی بلوچستان محض ایک جنگ زدہ خطہ ہے جہاں مانگ بندوق کی ہے کتاب کی نہیں۔ میری اس دوست سے یہ گفتگو گوادر بک فیسٹیول 2023ء میں شرکت کے بعد اسلام آباد واپسی پر ہوئی۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ بلوچستان بارے ان کا تاثر غلط نہیں بلکہ شدید غلط ہے۔ بلوچ نوجوان علم کی پیاس رکھتے ہیں۔ وہ لاہور، کراچی یا اسلام آباد میں ہونے والے ادبی میلوں کے مقابلے پر تین گنا زیادہ کتابیں خریدتے ہیں۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ گوادر بک فیسٹیول تھا یا بلوچستان میں ہونے والے دیگر ادبی میلے جن میں مجھے شرکت کا موقع ملا، ان میں کھل کر بات ہوتی ہے۔ یہ میلے مقامی وسائل سے کئے جاتے ہیں۔ ان میلوں میں آپ کو ایک توانائی ملتی ہے۔ مجھے نہ تو کہیں بی ایل اے یا بی ایل ایف کے سرمچاروں کی حمایت دکھائی دی نہ سنائی پڑی۔
گوادر بک فیسٹیول کا بجٹ انتہائی محدود تھا۔ خدمات انجام دینے والے رضاکار نوجوان لوگ تھے۔ اس میلے کا انعقاد ایک ہائی سکول کی خستہ حال عمارت میں ہو رہا تھا۔ یہ ادبی میلہ کراچی لاہور میں ہونے والے بے جان لٹریری فیسٹیولز سے بالکل مختلف تھا جو فائیو سٹار ہوٹلوں میں ہوتے ہیں۔ ایسے لٹریری فیسٹیولز کے پاس بے تحاشا کارپوریٹ فنڈنگ بھی ہوتی ہے، کچھ غیر ملکی سفارت خانوں سے بھی پیسے ملے ہوتے ہیں۔ اکثر ایونٹ ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان میں شرکت کر کے اچھا محسوس کریں۔ انجمن ستائش باہمی والا ماحول بنا ہوتا ہے البتہ ایسے مقررین یا موضوعات جنہیں متنازعہ سمجھا جاتا ہے، ان سے اجتناب برتا جاتا ہے۔
میرے دوست کو یہ جان کر بھی خوشگوار حیرت ہوئی کہ گوادر یونیورسٹی میں میرے لیکچر کے بعد طلبہ کی نسبت طالبات نے زیادہ سوالات پوچھے۔ میں اپنے دوست کو ایک عرصے سے شکایت کر رہا تھا کہ جس یونیورسٹی میں میں پڑھاتا تھا وہاں لگ بھگ پینتیس چالیس سال پہلے طالبات نے نقاب اوڑھ لئے اور شائد ہی ان میں سے کسی نے سوال پوچھنے کی جرات کی ہو۔
میرے دوست کا وسیع مطالعہ ہے، نیک نیت ہیں، دنیا بھی دیکھ رکھی ہے مگر بلوچستان بارے ان کے خیالات بے بنیاد تھے۔ ملک میں باقی لوگوں کی حالت کیا ہو گی؟
بات یوں ہے کہ جب سنسر شپ لاگو ہو جائے تو بری خبر کے ساتھ اچھی خبریں بھی دفن ہو جاتی ہیں۔ سی پیک کے لئے غیر ضروری حد تک فکر مند انتظامیہ ہر وقت پریشان رہتی ہے کہ کہیں کوئی بری خبر نشر نہ ہو جائے۔ جب تک ’اوپر‘ سے اجازت نہ ملے، اخبار اور نیوز چینلز بلوچستان بارے کوئی خبر نہیں دیتے۔
اس حقیقت کا ادراک ایک مچھیرے کے بیٹے اور گوادر کی’حق دو تحریک‘کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن سے بہتر کسی کو نہیں ہے۔ وہ گذشتہ سال لاہور میں ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس پر سب کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ مولانا نے اس موقع پر گرجتے ہوئے کہا کہ لاہور میں حلوائی کی دکان اندر چوہا گھس جائے تو بریکنگ نیوز چلنے لگتی ہے مگر بلوچستان میں سڑک کنارے لاشیں پڑی ملتی ہیں تو میڈیا کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مولانا ہدایت الرحمن جماعت اسلامی کے بھی رہنما ہیں، ان دنوں پابند ِسلاسل ہیں۔ ان پر قتل کا مقدمہ ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ مولانا دو ایجنسیوں کی آپسی لڑائی کا شکار ہیں۔ ایک ایجنسی انہیں سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتی ہے، دوسری انہیں جیل سے باہر لانا چاہتی ہے۔
گوادر میں بطور اجنبی (آخری بار 1960ء میں جانا ہوا تھا) میں یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ گوادر میں کس ایجنسی کو باقی سب سکیورٹی اداروں پر اختیار حاصل ہے۔ ہر ایجنسی اپنی عمل داری میں کسی کو گھسنے نہیں دیتی اور ہر کسی نے آمدن کے کچھ اضافی ذرائع بنا رکھے ہیں۔ ہائی ویز اور بڑی شاہراہوں کے ارد گرد، پہاڑی چوٹیوں پر عمانی طرز کے محل اور قلعے دکھائی دیتے ہیں۔ جگہ جگہ بنکرز اور چیک پوسٹیں قائم ہیں۔
تربت مٹی کی طرح خشک ہے۔ یہاں سے گزرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ مقامی معیشیت چلتی کیسے ہے۔ جواب: سمگلنگ۔
کوئی مصنوعی سی کوشش بھی نہیں کی جاتی کہ ایران سے پیٹرول، تیل اور ایل این جی کی سمگلنگ کو روکا جائے۔ کراچی یا پنجاب کے بعض حصوں کی طرف رواں ٹریفک زیادہ تر ایسے پک اپ ٹرکوں پر مشتمل ہے جن پر تیل سے بھرے جیری کین لدے ہوتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ کراچی جانے والی ہر لگثرری کوچ آٹھ دس ہزار لیٹر تیل بھی سمگل کرتی ہے۔ کراچی جاتے ہوئے ہر چوکی پر پہلے سے طے شدہ ریٹ کے مطابق مٹھی گرم کر دی جاتی ہے۔
گوادر میں باہر سے آئے کسی بھی شخص کو جو بات سب سے زیادہ متوجہ کرتی ہے وہ یہ کہ جس نے بھی نیو گوادر کا منصوبہ ڈیزائن کیا، اس نے گوادر کی مقامی آبادی بارے ایک لمحہ بھی سوچنے کی زحمت نہیں کی۔ مقامی آبادی کو ساحلِ سمندر سے دور کر دیا گیا ہے جبکہ مچھلی رانی کے لئے مواقع محدود کر دئے گئے ہیں۔ مستقبل میں ایک سڑک بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس سڑک کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کشتی سازی کی مقامی صنعت تباہ ہو جائے گی۔ پرانا گوادر شہر مٹی کا ڈھیر بن گیا ہے مگر راولپنڈی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔
یہ بندرگاہ چینی تعمیر کر رہے ہیں جو بظاہر کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اہل گوادر انہیں مذاق سے یاجوج ماجوج کہہ کر بلاتے ہیں۔ بلا کے خوبصورت ساحلوں پر چہل قدمی کرنے کی بجائے وہ ایسے بیرکوں میں مقید رہتے ہیں جو دور سے قید خانے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بندرگاہ کی تعمیر کے بعد یہ لوگ چین لوٹ کر جائیں گے تو ہی آزادی سے گھوم پھر سکیں گے۔
اتفاق سے، قریب ہی واقع گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جانے کا بھی موقع مل گیا۔ یہ ایک عجیب سا تجربہ تھا۔ وہاں نصب ایک تختی پر درج تھا کہ یہ جدید ترین ادارہ چین نے تعمیر کیا ہے۔ آڈیٹوریم، لیکچر ہال، کلاس روم، اورلیبارٹریاں بلاشبہ بہت عمدہ تھیں۔ میں نے باقاعدہ گنتی کی کہ کرینوں، گینٹریز (Gantries)، ٹرالوں اور فورک لفٹس کے لئے 60 ٹریننگ سیمولیٹرز تھے۔ بالکل نئے۔ ابھی ان کے پلاسٹک کور بھی نہیں ہٹائے گئے۔ اس وسیع و عریض کیمپس پر البتہ کوئی اساتذہ تھے نہ طلبہ اور دیگر سٹاف۔ صرف چوکیدار نظر آتے ہیں۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ یہ کیمپس اپنا کام کب شروع کرے گا۔
یہ ایسی ترقی ہے جو پاگل پن کا شکار ہو گئی ہے۔ کس کو مورد الزام ٹہرایا جائے؟ اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟ کیا کوئی پیشگی منصوبہ بندی کی گئی، کوئی دستاویز تیار کی گئی، اگر کی گئی تھی تو اس میں کیا تجاویز دی گئیں؟ گوادر میں ہونے والی ترقی کا فائدہ انہی کو پہنچے گا جو ہمیشہ ہی فائدے میں رہتے ہیں۔ بے شمار سرکاری ادارے ہیں جن کے دفاتر اور رہائشی کالونیاں بنائی گئیں ہیں اور ان کے ارد گرد خاردار تاریں کھینچ دی گئی ہیں۔ اسے شائد کولونائزیشن تو نہیں کہا جا سکتا مگر یہ افسر کالونیاں بنانے والے معروف رجحان کا اظہار ضرور ہیں۔
حسن اتفاق کہ کاکول کے گریجویٹ ایک فوجی افسر سے بھی تین گھنٹہ ملاقات ہو گئی۔ اچھی طبیعت کے مالک بھی تھے اور ذہین بھی۔ جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں حصہ لے چکے تھے۔ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے/بی ایل ایف کے موازنے بارے پوچھا تو بولے: بی ایل اے/بی ایل ایف والے تو جرائم پیشہ اور مہم جو ہیں، ٹی ٹی پی والے کٹر قسم کے تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئے کہ اگر فوج بلو چستان میں نہ ہوتی تو بی ایل اے/بی ایل ایف بھی نہ ہوتے۔
بہت ہی دلچسپ بات! یہ سن کر میرا سوال تھا کہ فوج پھر بلوچستان چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟ امن و امن کی صورت حال مقامی پولیس اور بلوچ لیویز کے حوالے کیوں نہیں کر دی جاتی؟
فوجی افسر نے ایک آہ بھری۔ پھر بولے: جی ہاں، جلد یا بدیر ایسا کرنا ہی پڑے گا مگر پولیس اور لیویز کے پاس نہ ضروری اسلحہ ہے نہ تربیت، پھر یہ کہ ان دونوں اداروں کے اہل کار مقامی لوگ ہیں، دہشت گرد ان کے خاندانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
یہ نوجوان فوجی افسر نہیں چاہتاکہ یہاں کے لوگ اسے ایک قابض فوج کا سپاہی سمجھیں۔ مستقبل میں تھری سٹار جنرل بننا چاہتے ہیں۔ امید ہے ایک دن بن جائیں گے۔
اہل اقتدار کی نظر میں بلوچستان کوئی دور دراز خطہ ہے جو ریگزاروں پر مبنی ہے، جہاں قبائلی رہتے ہیں۔ یہ خطہ قدرتی دولت سے اس قدر مالا مال ہے کہ اسے اس کے حال پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس پر دور سے حکمرانی کرنا ضروری ہے۔ اس پس ماندہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ پاکستان الٹا سفر کر رہا ہے۔ بلوچستان اور اسی طرح پاکستان کا از سر نو اور منفرد انداز کا تصور پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ تاریخ ویسا ہی ہرجانہ دائرکرے گی جو ایک مرتبہ پہلے بھی کر چکی ہے۔ اگلی بار مگرہرجانے کی رقم پہلے سے بھی بڑی ہو سکتی ہے۔