آرٹ کی حالیہ بحث کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم چاہیں گے کہ ان بنیادی منطقی مغالطوں پر روشنی ڈالیں جن کا استعمال ایسی بحثوں یا مناظروں میں ان عناصر کی جانب سے کیا جاتا ہے جن کے پاس اپنے مخالف فریق کی بات کو رد کرنے کی کوئی معقول دلیل و منطق نہیں ہوتی ہے۔ بہت سے دوست پہلے سے ان وارداتی ”دلائل“ سے واقف ہوں گے۔ لیکن موجودہ بحث میں ان مغالطوں کا استعمال ایسے افراد کی جانب سے کیا گیا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف خود شاعر اور ادیب ہیں بلکہ شعر و ادب کے سمندر میں یوں غوطہ زن ہیں کہ ہر روز نئے موتی تلاش کے لا رہے ہیں۔ یہاں ہماری مراد وہ ترقی پسند اور انقلابی ساتھی ہرگز نہیں جو سنجیدگی سے سیکھنا اور سکھانا چاہتے ہیں لیکن اپنی معصومیت اور بھولے پن میں ان نوسربازوں کے نرغے میں آ جاتے ہیں۔