لاہور(جدوجہد رپورٹ) حکومت پنجاب نے جمعرات کو صوبے بھر میں 13ہزار سرکاری سکولوں کی نجکاری کا آغاز کیا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس پالیسی کا مقصد تعلیم کے شعبے میں تبدیلی لانا ہے۔ تاہم بتدریج ریاست بنیادی تعلیم کی فراہمی کی ذمہ داری سے دستبرداری کی جانب سفر کر رہی ہے۔
’ڈان‘ کے مطابق یہ اقدام حکومت کے وسیع تر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل کا حصہ ہے۔ جس کا بظاہر مقصد تعلیم کے معیار کو بڑھانا اور لاکھوں طلبہ کیلئے تعلیم کی رسائی میں اضافہ کرنا ہے۔
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ان13ہزار پرائمری سکولوں کی نگرانی کرتی ہے، جن میں 1کروڑ80لاکھ طلبہ داخل ہیں۔
حکومت نے منصوبے کے پہلے مرحلے میں 5ہزار863سرکاری سکول حوالے کرنے کیلئے نجی شعبے کے اداروں کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں چار چار ہزار سکولوں کی منتقلی کی جائے گی۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل کی شرئط کے تحت حکومت نجی شعبے کو ماہانہ 650روپے فی طالبعلم فراہم کرے گی۔ نجی شعبہ اساتذہ کے انتظام اور ضروری انفراسٹرکچر کی فراہمی کا ذمہ دار ہوگا۔ حکومت اس طرح وقتی پرائمری سطح پر مفت تعلیم کی فراہمی جاری رکھنے اور نجی شعبے کو سکولوں کا انتظام دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم ماضی کے تجربات کو دیکھا جائے تو یہ سلسلہ زیادہ دیر چلتا نظر نہیں آرہا ہے۔
حکومت نے 21این جی اوز، 12ایجوکیشنل چینز اور ایک ایڈٹیک فرم کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کئے ہیں، جو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ماڈل کے تحت 3ہزار650سرکاری سکولوں کا انتظام سنبھالیں گے۔
پبلک سکولز ری آرگنائزیشن پروگرام کے ڈائریکٹر شفیق احمد نے پنجاب ایجوکیشنل فاؤنڈشن کی جانب سے ان معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ نجی شراکت داروں کے ساتھ معاہدوں کو حتمی شکل دینے کا عمل5ستمبر تک جاری رہے گا۔
وزیر حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس پروگرام کا مقصد18کروڑ سے زائد سکول نہ جانے والے بچوں کو تعلیمی نظام میں واپس لانا ہے۔
ادھر پنجاب ٹیچر یونین کے جنرل سیکرٹری رانا لیاقت نے اس ماڈل پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ماضی میں بھی نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔
انہوں نے650روپے فی طالب علم مختص کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم ناکافی ہے۔ اس رقم سے نجی شعبے کیلئے سکول کے اخراجات کا انتظام کرنا اور تعلیمی معیار کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ان سکولوں میں میٹرک سے کم تعلیمی قابلیت کے حامل بہت سے اساتذہ 5ہزار روپے سے کم تنخواہ پر ملازم ہیں۔
انہوں نے حکومت سے اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے تجویز کیا کہ ان فنڈز کو دوپہر کے سکولوں پر بہتر طریقے سے خرچ کیا جا سکت اہے۔ طلبہ کو روزانہ ایک سے دو گھنٹے پڑھانے کیلئے15ہزار وپے کی کم از کم تنخواہ کے ساتھ سکول کے انٹرنز کی خدمات حاصل کی جائیں۔