لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)محمد صدیق چک ’76-5 / R‘ ساہیوال کے رہائشی ہیں۔ اس گاؤں کی زیادہ تر زمین ساہیوال کول پاور پلانٹ کے لئے حاصل کی گئی تھی، دیہاتیوں پر اس پلانٹ کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ کیا وہ اس طریقے سے بجلی پیدا کرنے کے حق میں ہیں۔ یہ انٹرویو امجدمحمود اور فاروق طارق نے ان کے گاؤں میں لیا۔
محمد صدیق نے بتایا کہ وہ اس گاؤں کے جدی پشتی ہیں، جب پلانٹ لگنے کی خبر آئی تو ہم خوش ہوئے کہ شایدہماری تقدیر بدلنے والی ہے مگر اب تین سال بعد پورا گاؤں اس کے خلاف ہے۔
اس پلانٹ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے میں بے روزگار ہوں۔ میں اس وقت سے فارغ ہوں جب سے حکومت نے میری 15 ایکڑ اراضی زبردستی پلانٹ کے لئے حاصل کی۔ اب میں سارا دن صرف تاش کھیلنے کے لئے آزاد ہوں۔
مجھے یقینا میری زمین کا معاوضہ دیا گیا تھالیکن یہ مارکیٹ میں مروجہ شرح سے کم تھا۔ یہ تقریباً20 لاکھ روپے فی ایکڑ تھا لہٰذامیں کسی دوسرے گاؤں جانے اور ان پیسوں کے بدلے نئی زمین خرید کر اپنے پیشے یعنی زمین کی کاشت دوبارہ شروع کرنے کا سو چ بھی نہیں سکتا ہوں۔
رشتہ دار اور دوست مجھے کسی اور کاروبار میں جانے کا مشورہ دیتے رہے ہیں لیکن تجربے کی کمی اور دوسرے کاشت کاروں کودرپیش نتائج کو دیکھنے کے بعد میں گھبرا گیا۔ انہوں نے اسی طرح کا اقدام کیا تھا اور اپنی جائیداد کے بدلے ملنے والے پیسوں سے کاروبار کرنے کی کوشش کی مگر اس میں سے زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرنے کے باوجود وہ بری طرح ناکام رہے۔ میرے اپنے ذہن میں کاروبار کے بارے میں اگر کچھ خیالات تھے بھی تو ان کو کھرچ کر نکال دیا۔
چونکہ عام دیہاتیوں کو اتنی بڑی رقم کبھی نہیں ملی اس لئے وہ اس رقم کو استعمال کرنے اور خرچ کرنے کے بارے میں کوئی مناسب منصوبہ بندی نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے گارے سے بنے کچے مکانات کو کنکریٹ ڈھانچے میں تبدیل کرکے اور پتھر ٹائلیں لگاکر اپنے پیسے ختم کردیئے۔ کچھ کو ان کے رشتہ داروں نے مختلف لالچ دے کر لوٹ لیا۔
ہاں، پلانٹ میں نوکری کے لئے پیشکش ہو رہی ہے لیکن چونکہ اجرت بہت معمولی ہے، ماہانہ صرف 15 ہزار روپے اور 12 گھنٹے روزانہ ڈیوٹی۔ پھر اس مزدوری کی نوعیت بھی یہ ہے کہ جیسے پورے علاقے میں جھاڑو لگانا وغیرہ۔ تو میں نے سیدھے سبھاؤ انکار کردیا۔
میں اپنی زمین بیچنے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ لیکن محکمہ مال کے عہدیداروں اور ضلعی انتظامیہ نے اپنے تمام اثرورسوخ اوردباؤ کے حربے استعمال کرکے مجھے زمین بیچنے پر مجبور کر ہی دیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت میرے خلاف مقدمہ بھی درج کروایا۔
میرے کچھ دیہاتی بھائیوں کو اس سے بھی کم رقم دی گئی ہے۔ افواہیں ہیں کہ دلالوں نے یہ زمین کوئلے کی کمپنی کو تیس لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے فروخت کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پراپرٹی ڈیلر یا درمیانی لوگوں نے سودے میں خوب مال بنایا۔
میں صرف اپنی زمین کھونے کی وجہ سے پلانٹ کے خلاف نہیں ہوں کیونکہ یہ میرے اور دوسرے دیہاتیوں کے لئے بھی معاش کاواحد ذریعہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کی سب سے زیادہ زرخیز زمین کسی ایسے منصوبے کے لئے لی گئی ہے جو اس زمین کیلئے مخصوص بھی نہیں تھا اور ملک کے کسی بھی کونے میں لگایا جاسکتا تھا۔
ہماری معمول کی زندگی اور معاش کوخراب کرنے کے علاوہ اس نے زیر زمین پانی کوبھی آلودہ کرنا شروع کردیاہے۔ کیونکہ پلانٹ میں پانی کو‘ ٹھنڈا کرنے اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور پھر اس استعمال شدہ پانی کو بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے علاقے کی نہروں میں چھوڑا جارہا ہے۔
محمد صدیق نے کہا کہ ہم کالے پانی کی بارش (تیزاب کی بارش) کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔ بارش کے بعداب دھندلا افق واضح ہوجائے گا کیونکہ بارش کوئلے کے پلانٹ کی چمنیوں سے خارج ہونے والے تمام دھوئیں کو نیچے لے آئیگی۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی جیسے امراض، جگر کے کینسر، ٹی بی اور ذیابیطس جو ابھی تک اس علاقے میں سنے نہیں تھے اب ہمارے دیہاتیوں میں پائے جا رہے ہیں۔
پلانٹ کی حفاظت کے معاملات ہماری زندگیوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں نماز جنازہ پڑھنے کے لئے بھی خصوصی اجازت لینی ہوتی ہے کیونکہ قبرستان پلانٹ کے قریب ہی واقع ہے۔ محکمہ مال کے اہلکار پلانٹ سے 40 میٹر کے دائرے میں موجود 20 مکانات کے مالکان کو انھیں منہدم کرنے اور ان کا ملبہ پلانٹ سے 40 میٹر دور ہٹانے پر مجبور کررہے ہیں۔
ایک کھال جو 600 ایکڑ اراضی کو سیراب کرتا تھا اب پلانٹ کے استعمال میں آنے والی زمینوں سے گزرنے کی وجہ سے بند پڑا ہے۔ آبپاشی کے پانی کی فراہمی کی کمی کی وجہ سے یہ تمام اراضی بنجر ہوگئی ہے۔
اور ان سب قربانیوں اور مسائل کے بدلے میں ہمیں کیا مل رہا ہے! کوئی خاص فائدہ! نہیں، بالکل نہیں۔ اگرچہ ہمارا گاؤں سینکڑوں میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے لیکن یہاں بجلی کی فراہمی کی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے جس کاتجربہ دوسرے دیہات کرتے ہیں۔
اے ڈی سی جی (ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل) نے ہمیں زمین بیچنے پر راضی کرتے ہوئے پلانٹ میں فی گھر دو ملازمتوں، مفت بجلی کی فراہمی اور سیوریج سسٹم کا وعدہ کیا تھا۔ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اس پراجیکٹ میں اب کل 4 ہزارآبادی والے گاؤں میں سے اکّادکّا نوجوان ہی کام کر رہے ہیں۔