دنیا

امن معاہدہ؟ عرب امارات نے اسرائیل سے جنگ کب لڑی تھی

فاروق سلہریا

جمعرات کے روز یہ متوقع سا اعلان سامنے آیا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس عمل کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ’امن معاہدہ‘ قرار دیا ہے۔

امن معاہدہ؟ متحدہ عرب امارات یا اس کے خلیجی کزنز نے کس دن اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا؟

سچ تو یہ ہے کہ فلسطین کی پینٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے۔ فلسطین پر یہ وار صرف متحدہ عرب امارات کے سلطانوں نے نہیں کیا۔ خلیج کی کوئی ریاست (ماسوائے قطر کے) بغیر سعودی عرب کی آشیر باد کے کوئی اہم سفارتی اقدام نہیں کر سکتی۔ خلیج کی مختلف ریاستیں پچھلے چند سالوں سے ایسے واضح اشارے دے رہی تھیں کہ جن کا مقصد اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی تھا۔

قصہ مختصر، متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنا ایک ایسے عمل کا آغاز ہے جس کا انجام یہ ہوگا کہ سعودی عرب بھی کسی نہ کسی شکل میں اس عمل میں شریک ہو جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ سعودی عرب کا ولی عہد کسی دن یہ دھماکہ کر ہی دے کہ سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔

دوسری بات: مشرق وسطیٰ میں اسرائیل سے بھی پرانی سامراجی چوکی سعودی عرب ہے۔ جمعرات کو ہونے والا معاہدہ سامراج کی دو داشتاوں کے مابین ایک معاہدہ ہے جو پہلے خفیہ طور پر موجود تھا، اب اس کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور خلیجی ریاستیں مل کر نہ صرف اس خطے میں بلکہ دنیا بھر میں بائیں بازو کے خلاف لڑتی رہی ہیں مگر ان کا مشترکہ نشانہ ترقی پسند عرب قوم پرستی اور عرب سوشلزم تھا۔ اس لئے اس معاہدے پر کسی قسم کی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ جب تک عرب ملکوں میں آمریتیں موجود ہیں، فلسطین سے غداری ہوتی رہے گی۔

تیسری بات: حکمران کچھ بھی کریں، یہ اقدام عرب عوام میں شدید ناپسندیدگی سے دیکھا جائے گا۔ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی سے حکمرانوں کی عدم مقبولیت اور ان کی اجنبیت میں مزید اضافہ ہو گا۔ رہی بات فلسطین کی تو فلسطینی عوام کے لئے یہ دھچکا غیر متوقع نہیں ہوگا۔ ویسے بھی انہوں نے عرب حکمرانوں پر تکیہ کرنا ایک عرصے سے چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ پاکستانی محنت کش طبقے کا فرض بنتا ہے کہ فلسطینی جدوجہد آزادی کا کھل کر ساتھ دے اور وہ دیتا رہے گا۔ جس طرح فیض احمد فیض اور محمود درویش کی دوستی لازوال ہے اسی طرح پاکستانی محنت کشوں کی اپنے فلسطینی بہن بھائیوں سے کمٹ منٹ لازوال ہے۔

اسرائیل ایک کلونیل پراجیکٹ ہے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں سامراج کی اہم ترین چوکی ہے۔ اسرائیل کی شکست خطے میں سامراج اور عرب آمریتوں کی شکست ہے۔ اسرائیل جب تک ایک کلونیل پراجیکٹ کی صورت میں موجود ہے، اس خطے کا امن ہی نہیں، امن عالم بھی خطرے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے ممالک میں، عام لوگوں کے اندر، بھی فلسطین کے لئے حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ میں تو جنوبی افریقہ، کیوبا یا وینزویلا جیسی حکومتوں نے اسرائیل کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ فلسطینی نقطہ نظر جیت رہا ہے۔

آخر میں کچھ ذکر پاکستان کے حکمران طبقے کا: انتہائی شرم کی بات ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ابھی تک اس پیش رفت بارے مذمتی بیان تک جاری نہیں ہو سکا۔ یہ امر تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ حزب اختلاف کو بھی شرم نہیں آئی۔ آتی بھی کیسے؟ آصف زرداری کا محل دبئی میں ہے اور مسلم لیگ کی ساری قیادت کے پاس خلیجی ریاستوں کے اقامے ہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔