فاروق سلہریا
فیفا نے اپنی بدعنوانی اور جمہوریت دشمنی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے 2034کا ورلڈ کپ سعودی عرب میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ چوتھی بار ہوگا کہ فٹ بال کی تاریخ میں ورلڈ کپ کے مقابلے ایک ایسے غیرجمہوری ملک میں منعقد کیے جائیں گے،جس کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بہت برا ہے۔
پہلی مرتبہ1930میں مسولینی کے فاشسٹ اٹلی میں فٹ بال کا ورلڈ کپ منعقد کروایا گیا تھا۔ اس ورلڈ کپ کے فائنل میں اٹلی نے چیکو سلواکیہ کو ہرا کر یہ ورلڈ کپ جیت لیا تھا۔
1978میں ارجنٹینا میں ورلڈ کپ منعقد کروایا گیا۔ ارجنٹینا میں اس وقت ایک بہت ظالم فوجی آمریت مسلط تھی۔ اس آمریت کے دوران 30ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہوئے۔ یہاں پر بھی ورلڈ کپ ارجنٹینا نے نیدرلینڈ کو 3-1 سے ہرا کر جیت لیا تھا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ فائنل کے مقابلے میں ریفری نے ایک غلط فیصلہ دیا، جس کا مقصد ارجنٹینا کو فائدہ دینا تھا۔
تیسری بار 2022میں قطر میں یہ ورلڈ کپ منعقد کروایا گیا،جہاں پر برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘کے مطابق کئی ہزارمزدور فٹ بال سٹیڈیم تعمیر کرتے ہوئے ہلاک ہوئے اور دیگر تنازعات نے جنم لیا۔ایل جی بی ٹی رائٹس کے حوالے سے بالخصوص ایک عالمی تنازع کھڑا بھی ہوا۔
اب چوتھی مرتبہ سعودی عرب کے اندر یہ ورلڈ کپ منعقد کروایا جا رہا ہے، جہاں پر ہر سال ایران کی طرح، چین کی طرح لوگوں کو سب سے زیادہ پھانسیاں دی جاتی ہیں، لوگوں کے سر قلم کئے جاتے ہیں اور مزدوروں کو غلام بنا کر رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے، جسے انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کے بدترین ملکوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
یہ غیر جمہوری ملک جہاں اس طرح کے مقابلے ہوتے ہیں،عام طور پر سامراجی حلیف ہوتے ہیں۔ یہ اپنی امیج بلڈنگ کے لیے کھیلوں کو استعمال کرتے ہیں۔ محمد بن سلمان نے بالخصوص پچھلے عرصے میں اربوں ڈالر خرچ کر کے فٹ بال کو پہلے کلب فٹ بال کے ذریعے اور اب ورلڈ کپ کے ذریعے سعودی عرب کی امیج بلڈنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔
یہ کہنا کہ کھیل غیر سیاسی ہوتے ہیں بالکل ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ کچھ بھی غیر سیاسی نہیں ہوتا، حکمران طبقات کھیل سے لے کر میوزک تک اور آرٹ سے لے کر سکول کی تعلیم تک ہر چیز کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ مذہب کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور سیکولرزم کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اگلا ورلڈ کپ اس گھناونے کھیل کی اگلی قسط ہو گا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔