فاروق طارق
بالآخر جنرل عاصم باجوہ نے بڑی سوچ و بچار اور اپنے تمام تر مصاحبین کے ساتھ مشورے کے بعد جو 4 صفحات کا جواب احمد نورانی کو دیا، اس نے معاملات کو سلجھانے کی بجائے الجھا دیا ہے۔
یہ بات تو مان لی گئی کہ اس کے بیٹوں نے کمپنیاں کھولیں۔ استدلال یہ ہے کہ انہوں نے کاروبار نہ کیا اور یہ چھوٹی کمپنیاں تھیں۔ بھائی آخر کچھ تو سوچ کر یہ کمپنیاں بنائی گئیں لیکن شائد بعد میں سوچا کہ کاروبار کیا تو بڑا نقصان ہو گا۔
اس کے علاوہ 70 ملین ڈالر بارے کہا گیا کہ 60 ملین ڈالر تو بینکوں سے قرضہ لیا گیا۔ ابھی جنرل صاحب نے مزید 10 ملین کا حساب دینا ہے۔
جنرل صاحب کہتے ہیں کہ میرے بیٹے نے امریکہ میں مکان 31,000 ڈالر کا خریدا، البتہ اس پر یقین کرنا تو بہت مشکل ہے۔
جنرل صاحب نے جو یہ دلیل دی کہ میرے بیٹے پڑھے لکھے، بالغ اور خودمختار ہیں۔ وہ اپنا کاروبار کر سکتے ہیں۔ بالکل ٹھیک، پھر یہ پیمانہ سب کے لئے ہونا چاہیے، میاں نواز شریف اور قاضی عیسیٰ بھی تو یہی کہتے رہے۔ اب دیکھیں جنرل صاحب کی یہ دلیل کس حد تک مانی جاتی ہے۔
یہ تو جنرل صاحب نے بہت اچھا کیا کہ چار صفحات کی یہ پریس ریلیز جاری کی۔ اگر پریس کانفرنس کرتے اور صحافیوں کے دو بدو ہوتے تو کئی متضاد باتیں سامنے آ جانی تھیں۔
ابھی بھی بیٹوں، بھائیوں اور انکے اس بیان میں کافی مختلف توجیحات پیش کی جا رہی ہیں۔
جنرل صاحب، آپکی حکومت لوگوں کو پاکستان آنے اور یہاں کاروبار کرنے کا کہتی ہے۔ آپ کے بھائیوں اور بیٹوں نے اس کے الٹ کیا۔ اس کا بھی جواب دے دیتے تو اچھا ہوتا۔
یہ تو یہاں رواج ہی نہیں کہ سنجیدہ الزامات پر استعفیٰ اور اگر الزامات غلط ثابت ہوں تو باعزت واپسی اور ایسا سوچنے والے کہ جنرل صاحب استعفیٰ دے دیں گے حکمران طبقات کی روایات سے واقف ہی نہیں۔ جنرل صاحب نے تو عزت کے ساتھ مزید خدمت کرنے کی بھی نوید سنائی ہے۔