فاروق طارق
بنگلہ دیش میں سابق وزیر اعظم حسینہ واجد جب فوج کی مدد سے ملک سے فرار ہوئیں تو اس وقت پورا ملک ان کے اقتدار کے خاتمے کا جشن منا رہا تھا۔ ان کے گھر میں ہزاروں افراد داخل ہوئے اور کرسیاں تک اٹھا کر لے گئے۔
وہ حسینہ واجد جس کے حکم پرکل تک 300 سے زائد احتجاجی مظاہرین کو قتل کیا جا چکا تھا، سیدھی گولیاں چلائی گئیں،فرار ہونے پر مجبور ہو گئیں۔ حسینہ ابھی اور دھمکیاں دے رہی تھیں۔
16 سال تک بلا شرکت غیرے اقتدار کے مزے لوٹنے والی دنیا کی سب سے زیادہ دیر تک وزیر اعظم رہنے والی عورت کا اعزاز حاصل کر نے والی حسینہ واجد،شرمناک انداز میں ملک سے فرار ہوئیں۔
وہ اپنی آمرانہ حکومت کا جواز اپنی معاشی ترقی کو بتاتی تھیں۔ پاکستان میں بھی اکثر لبرل حضرات حسینہ واجد کی ترقی کو مثال بنا کر پیش کرتے رہے۔ لبرل لوگ بنگلہ دیش کے اندرونی حالات کا جائزہ لئے بغیر،حسینہ واجد کو خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ خاص طور پر مذہبی جنونی قوتوں کے خلاف آمرانہ اقدامات 1971 کی جنگ کے مجرموں کو پھانسی کی سزاؤں کو مذہبی جنونیت سے چھٹکارے کا حل بتایا جاتا رہا۔ مذہبی جنونیت کا پھیلاؤ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اسے فوجی آپریشنوں، پھانسیوں اور آمرانہ اقدامات سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا حل سیاسی ہے اور سیاسی میدان میں مذہبی جنونیت کے نظریات کا جواب دینے سے ہی ان کو شکست دی جا سکتی ہے۔
شیخ حسینہ واجد نے 2008 کے عام انتخابات میں 300 نشستوں پر مشتمل پارلیمنٹ میں 266 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ پھر 2014 کے عام انتخابات میں آدھی سے زیادہ نشستوں پر عوامی لیگ اور انکے حامیوں کے علاوہ کسی نے کاغذات جمع نہ کرائے اور عوامی لیگ والے بلا مقابلہ کامیاب ہو گئے۔حزب اختلاف کے خلاف ہر قسم کے آمرانہ اقدامات کئے گئے اور 2014 میں عوامی لیگ کی 300 میں سے 274 نشستوں پر کامیاب قرار پائی۔ اس انتخاب میں صرف 22 فیصد عوام نے ووٹ ڈالے۔
2018 کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے 350 نشستوں میں سے 302جیت لیں اور ووٹر ٹرن آؤٹ 80 فیصد بتایا گیاجبکہ جنوری 2024 کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے 223 نشستیں جیتنے کا دعویٰ کیا۔ ووٹر ٹرن آوٹ 40 فیصد بتایا گیا۔۔۔ لیکن آزادانہ حلقوں کے مطابق ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے بھی کم تھا۔
اندازہ کریں کہ کس قدر آمرانہ اقدامات پچھلے عام انتخابات میں کیے گئے کہ عوامی لیگ دو تہائی اکثریت لینے کے دعوے کرتی رہی۔ انتخابات میں حزب اختلاف کو ہر طریقے سے انتخابات میں حصہ لینے سے روکا گیا۔ پچھلی دفعہ بننے والی پارلیمنٹ کے آدھے ارکان تو بلا مقابلہ کامیاب ہوئے تھے۔ اس دفعہ 2024 کے انتخابات میں اپوزیشن کے بائیکاٹ کی وجہ سے پوری پارلیمنٹ ہی بغیر کسی اپوزیشن کے جیت گئی تھی۔
اس پس منظر کو لکھنے کا مقصد وہ خوش فہمیاں دور کرنی ہیں جو پاکستان کے بعض حلقوں میں عام طور پر پائی جاتی ہیں کہ حسینہ واجد ایک سیکولر قوت تھیں اور ان کا مقابلہ دائیں بازو کی جماعتوں سے تھا۔
وہ ایک آمر تھیں جو سیکولرازم کے نام پر جابرانہ اقدامات کر رہی تھیں۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو بغیر مناسب صفائی کا موقع دیئے پھانسیاں دینا کوئی ترقی پسندانہ اقدامات نہ تھے۔یہ پھانسیاں اپنے اقتدار کو آمرانہ بنانے کی جانب قدم تھے۔ بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی گو کہ ایک دائیں بازو کی جماعت ہے، کے خلاف انتہائی آمرانہ اقدامات کوئی ترقی پسندانہ اقدامات نہ تھے۔ ان کی تمام قیادت کو جیلوں میں بار بار بند کیا گیا۔
انٹرنیٹ بند کئے گئے،ماورائے عدالت قتل کئے گئے،لاپتہ افراد کا سوال وہاں بھی زندہ رہا۔ یہ ایک آمرانہ حکومت تھی جو انتہائی غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے اپنے اقتدار کو طوالت دیتی رہی۔اسے بھارت کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مکمل حمائیت حاصل تھی۔یہ کسی بھی صورت سیکولر یا ترقی پسند حکومت نہیں کہلا سکتی تھی۔
طلبہ کی تحریک کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہوئی اور پھر بڑھتے بڑھتے سیاسی مطالبات پر آ کے ختم ہوئی۔ یہ ایک غیر معمولی عوامی تحریک تھی۔ اس میں ایک طالب علم نے پولیس کے سامنے آ کر کہا مجھے مارو گولی، پولیس نے سیدھی گولی چلائی جو اس کے سینے پر لگی۔ وہ پھر آٹھا اور کہا اور چلاؤ گولی۔ پولیس نے پھر کوئی لحاظ کئے بغیر گولی چلا دی اور وہ وہیں پر شہید ہو گیا۔ اس تحریک میں بہادری کی نئی مثالیں قائم ہوئیں۔ پولیس والوں کو یقین تھا کہ حسینہ واجد جانے والی نہیں اس لئے وہ بھی کوئی پرواہ کئے بغیر انتہائی آمرانہ اقدامات کرتے رہے۔
اس تحریک کے دوران300 سے زائد مظاہرین نے اپنی جان دی۔ صرف ایک روز قبل 93 افراد کوہلاک کیا گیا۔ اس ماہ کے دوران مسلسل کرفیو لگایا گیا لیکن طلبہ یونینز موجود تھیں جو منظم تھیں۔ان کا مقابلہ عوامی لیگ کی اپنے طلبہ تنظیموں سے تھا جو پولیس کے ساتھ مل کر طلبہ پر گولیاں چلا رہے تھے۔
اب ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے۔ فوج نے گذشتہ روز عملا اقتدار سنبھال لیا ہے۔ وہ ایک عبوری حکومت کے قیام کی بات کر رہے ہیں۔ عوامی لیگ کے علاوہ دیگر جماعتوں سے مشاورت کی بات کر رہے ہیں۔ یہ بھی آرمی چیف نے کہا کہ ایک دو روز میں صورتحال واضع ہو جائے گی۔
جب ایکدائیں بازو کی حکومت عوامی دباؤ میں مستعفی ہوتی ہے اور کوئی لیفٹ ونگ طاقت بڑے پیمانے پر موجود نہ ہو تو پھر اس سے بھی زیادہ رائٹ ونگ حکومت اقتدار سنبھال لیتی ہے۔حسینہ واجد کے ساتھ لیفٹ کی بڑی پارٹیاں بھی اقتدار میں شریک تھیں۔اب بنگلہ دیش میں ملٹری نے عملی طور پر اقتدار سنبھال لیا ہے جس کی کسی صورت بھی حمائیت نہیں کی جا سکتی۔
آرمی چیف نے تقریر میں کہا کہ رات تک معاملات سنبھل جائیں گے یعنی رات تک وہ مکمل اقتدار سنبھالنے کی بات کر رہے ہیں۔طلبہ کے ایک گروہ کی طرف سے بیان آیا ہے کہ وہ کوئی آمرانہ حکومت نہیں چاہتے۔ فوج نے اگر محسوس کیا کہ وہ بھی عوامی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو اپنی مرضی کی عبوری حکومت بنا کر کام چلائیں گے۔
یہ عوامی طاقت ہی ہو گی جو فوج کو مجبور کرے گی کہ فوج کسی حد تک منصفانہ عام انتخابات کا انعقاد کرے۔
یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ وہی فوج ہے جس نے عوامی لیگ حکومت کے تمام آمرانہ اقدامات کی اب تک حمائیت کی ہے۔ عوامی لیگ جس سرمایہ دارانہ ترقی کی بات کرتی رہی وہ وہاں کے محنت کش طبقات کے انتہائی استحصال پر مبنی تھی۔ انتہائی کم تنخواہیں، طویل اوقات کار، ہیلتھ اور سیفٹی کا خیال رکھے بغیر۔۔۔مگر ترقی کا دعویٰ کیا جاتا رہا۔
ہم بنگالی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ فوجی اقتدار پر کوئی مصالحت نہ کریں۔ اس پر اعتبار نہ کریں۔ اس کے جھوٹے وعدوں کو تاریخی پس منظر میں دیکھیں۔ تحریک جاری رکھیں اور اپنے نمائندوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت کے ذریعے نئے عام انتخابات کا انعقاد کریں۔محنت کش طلبہ کے ساتھ مل کر نئی سیاسی جماعت تشکیل دیں جو ترقی پسند پروگرام کو سامنے لائے۔