پرلی اینڈر
سب کو معلوم ہے کہ جلا وطن روسی انقلابی میکسیکو سٹی میں ایک سٹالنسٹ ایجنٹ کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے جس نے گھر تک رسائی حاصل کر لی تھی اور ایک تیز دھار آلے سے ٹراٹسکی کو ہلاک کر دیا۔
اگر ٹراٹسکی اگست 1940ء میں ہلاک نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟
امریکی مصنف اور سوشلسٹ ڈان لا بوٹز کا ناول اس مفروضے کی بنیاد پر تحریر کیا گیا ہے کہ 1940ء میں ٹراٹسکی ہلاک نہیں ہوئے تھے بلکہ ناول کا ایک کردار رالف بیسک، جو ٹراٹسکی کا محافظ تھا، آخری لمحے حملہ آور کو روک کرٹراٹسکی کی جان بچا لیتا ہے۔
ٹراٹسکی کا اپنا خیال تھا کہ ان کی زندگی کے آخری سال اہم ترین تھے۔ وفات سے دو ڈھائی سال قبل ٹراٹسکی نے خود لکھا: ”1917ء سے بھی اہم، خانہ جنگی کے دور سے بھی اہم، کسی بھی دوسرے دور سے زیادہ اہم…میرے علاوہ اب کوئی نہیں بچا جو نئی نسل کو انقلابی تجربات کے اسباق سے لیس کر سکے۔ مجھے لگ بھگ پانچ مزید سال درکار ہیں تاکہ میں اس بات کو یقینی بنا سکوں کہ میری سیاسی وراثت رائیگاں نہ جائے“۔
ڈان لابوٹز اپنے ناول میں ٹراٹسکی کو پوری ایک دہائی عطا کر دیتے ہیں تا کہ وہ دوسری عالمی جنگ، جرمنی میں یہودیوں کے قتل عام، ہیروشیما پر ایٹم بم کے حملے، مشرقی یورپ پر سوویت غلبے، انقلاب چین، جنگ ِکوریا اور سرد جنگ کا آغاز نہ صرف دیکھ سکیں بلکہ ان پر اپنا رد عمل بھی پیش کر سکیں۔
ناول کے مطابق قاتلانہ حملے میں ٹراٹسکی کے زندہ بچ جانے کے بعد میکسیکو کے صدر نے حفاظت کے پیش نظر فیصلہ کیا کہ ٹراٹسکی کو چھوٹے سے ساحلی قصبے تیوآنا بھیج دیا جائے جو امریکی شہر سان ڈیاگو کی سرحد کے پاس ہے۔ خیال یہ ہے کہ اگر ٹراٹسکی کی زندگی کو خطرات لاحق رہے تو بھی تیوآنا میں ٹراٹسکی کی جان کو کم خطرہ لاحق ہے۔
اس ناول کا اہم ترین کردار امریکی ٹراٹسکی اسٹ اور ناول میں ٹراٹسکی کا محافظ رالف بیوسک ہے البتہ تاریخ کے حقیقی کردار بھی ناول میں جا بجا ملتے ہیں۔ ان کرداروں میں ظاہر ہے ٹراٹسکی کے اپنے علاوہ ٹراٹسکی کی اہلیہ نتالیہ سیدوا، ٹراٹسکی کا سیکرٹری ژاں وان ہینورٹ، امریکی ٹراٹسکی اسٹ رہنما جیمز پی کینن اور روسی انارکسٹ وکٹر سرج شامل ہیں۔ ظاہر ہے سٹالن کا کردار بھی ہے جس کے ساتھ مصنف کو کوئی ہمدردی نہیں۔ ناول میں سٹالن کا اپنا نقطہ نظر ہے اور اپنے مقاصد ہیں۔
جب امریکہ سوویت یونین کا اتحادی بن کر دوسری عالمی جنگ میں شریک ہو جاتا ہے تو تیوآنا میں مقیم ٹراٹسکی کی تنہائی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سٹالن بارے ٹراٹسکی کی تنقیدی تحریریں اب امریکہ سے بھی شائع نہیں ہو سکتیں۔ امریکی ٹراٹسکی اسٹ اور ٹراٹسکی خود ظاہر ہے نازی جرمنی کے خلاف ”زوال پذیر مزدور ریاست“ کی حمایت کرتے ہیں مگر ٹراٹسکی کے لئے یہ بات انتہائی مایوس کن ہے کہ دوسری جنگ کے بعد کوئی عالمی انقلاب نہیں آتا۔ نہ سٹالنزم کا خاتمہ ہوتا ہے نہ سرمایہ داری کا۔ الٹا سٹالنزم دوسری عالمی جنگ کے بعد مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔
مشرقی یورپ میں قائم ہونے والی سوویت سیٹلائٹ ریاستوں یا انقلاب چین کے بارے میں کیا موقف اپنایا جائے؟ ٹراٹسکی اسٹ تحریک کے لئے یہ اہم سوال تھے۔
ٹراٹسکی کو اس بات پر شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ان کے حامی، جو چوتھی انٹرنیشنل کی شکل میں منظم ہیں، ان کی بات پر کان نہیں دھر رہے۔ فورتھ انٹرنیشنل اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ ٹراٹسکی کی شادی بھی مشکلات کا شکار ہے۔ صحت کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ اپنی مرضی کے خلاف ٹراٹسکی کو سائیکو تھراپی کے لئے ایک ایسے ماہر نفسیات کے پاس جانا پڑتا ہے جو کبھی سگمنڈ فرائڈ کا شاگرد تھا۔
آخر میں ٹراٹسکی کو ایک موقع ملتا ہے: کمیونسٹ دشمن امریکی سینیٹر جوزف میکارتھی ٹراٹسکی کو امریکہ آنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ وہ امریکہ مخالف سرگرمیوں بارے قائم کمیٹی کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرا سکیں۔
ٹراٹسکی یہ دعوت اس نیت سے قبول کر لیتے ہیں کہ وہ اس پلیٹ فارم کو اپنا سیاسی پیغام پھیلانے کے لئے استعمال کریں گے۔ جیمز پی کینن ٹراٹسکی کو سختی سے منع کرتے ہیں کہ وہ دعوت نامہ قبول مت کریں کیونکہ اس کمیٹی میں پیش ہونے کا مطلب ہے کہ وہ میکارتھی کے ہاتھوں استعمال ہونے والا ایک فائدہ مند احمق ثابت ہوں گے۔
اس موقع پر لگتا ہے کہ یہ ناول شائد ایک مزاحیہ ناول ہے مگر ناول نگار نے اسے انتہائی سنجیدگی سے لکھا ہے اور ناول پر المئے کا رنگ مزاح کی نسبت کہیں گہرا ہے۔
ڈان لا بوٹز ٹراٹسکی اسٹ نظریات سے بخوبی واقف ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہو گا کہ اگر ٹراٹسکی زندہ رہتے اور ان عالمی واقعات کا تجزیہ کر پاتے جو ان کی وفات کے لگ بھگ دس سال بعد رونما ہوتے رہے توڈان لا بوٹز کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کا کیا موقف ہے چاہے بطور ناول نگار ان کے پاس یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ ناول میں اپنی مرضی سے کہانی کو کوئی بھی موڑ دے دیں۔
ناول میں زبردست تاریخی معلومات بھی موجود ہیں۔ اگر کوئی قاری متعلقہ تاریخ سے نہیں بھی واقف تو بھی وہ ناول کے سنسی خیز اور دلچسپ واقعات سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
آخر میں ناول کے دونوں حریف، ٹراٹسکی اور سٹالن، ایک ہی دن، یعنی 5 مارچ 1953ء کو وفات پا جاتے ہیں۔ سٹالن کا یوم وفات واقعی یہی ہے۔ اگر یہ بہت عجیب اتفاق لگے تو یاد رہے تھامس جیفرسن اور جان ایڈمز بھی ایک ہی دن فوت ہوئے تھے۔ یہ دونوں انقلابی امریکی آئین کے آئین ساز مانے جاتے ہیں۔ دونوں 4 جولائی 1862ء کو فوت ہوئے اور ہاں 4 جولائی امریکہ کا قومی دن بھی ہے۔ جیفرسن اور ایڈمز بھی ایک دوسرے کے سیاسی مخالف اور سخت حریف تھے مگر زندگی کے آخری سالوں میں دوست بن گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹراٹسکی اور سٹالن بھی دوست بن سکتے تھے؟
یہ مضمون پہلی بارسویڈش میگزین ’انٹرناشنالن‘میں شائع ہوا۔ سویڈش سے ترجمہ: فاروق سلہریا