پاکستان

مارشل لا لگے گا نہ ہائبرڈ جمہوریت چلے گی

فاروق سلہریا

گذشتہ دو ہفتے انتہائی ڈرامائی ثابت ہوئے۔ واقعات اس تیزی سے رونما ہوئے کہ شطرنج کے کھلاڑی خود مہرے بن گئے۔ کچھ غیر متوقع ’ہیرو‘ بھی سامنے آئے۔

قومی اسمبلی میں دو سال پہلے ’ختم نبوت کے چیمپئین‘ بننے والے کیپٹن صفدر ایک دم پاکستانی جمہوریت کے تھامس جیفرسن کا چوغہ پہن کر سامنے آ گئے۔ سندھ پولیس کو بھی سلام پیش کئے جانے لگے۔

بات بالکل سیدھی سی ہے۔ شدید بحران کے دور میں جب محنت کش طبقہ منظم و متحرک نہ ہو تو پھر کیپٹن صفدر اور سندھ پولیس جیسے غیر متوقع ’ہیرو‘ ہی متحرک نظر آئیں گے۔

یہی سندھ پولیس کل کو مزدور کے جلوس پر لاٹھیاں برساتی ہو ئی نظر آئے گی اور یہی کیپٹن صفدر قومی مفاہمت کے نام پر کسی موقع پرستی کرتے ہوئے شرم سے پلک بھی نہیں جھپکیں گے۔

اندریں حالات، یہ بہر حال ثانوی باتیں ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم لوگوں کو جلسوں کی شکل میں متحرک کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ حکومت انتہائی کمزور ہوئی ہے۔ کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور سندھ پولیس کی بغاوت نے فوج کو بھی پسپائی پر مجبور کر دیا۔ آئی جی کا اغوا اے آر وائی جیسے پچاس چینل یا کامران خان جیسے ستر اینکر پرسن بھی صحیح ثابت نہیں کر سکتے تھے۔ میڈیا اور پراپیگنڈے سے لوگوں کو ایک حد تک ہی بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ بعض تضادات اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ پچاسوں اے آر وائی اور درجنوں ارشاد بھٹی بھی کم پڑ جاتے ہیں۔

یہی کچھ کراچی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی صورت حال میں بھی دیکھنے میں آیا۔

اب کیا ہوگا؟

چند دن بعد کوئٹہ میں جلسہ ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ لوگ پی ڈی ایم کی قیادت کی موقع پرستیوں کے باوجود جلسوں میں آ رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت سے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔

پی ڈی ایم کی تحریک اگر ایک حد سے آگے بڑھی تو اسٹیبلشمنٹ کے پاس دو ہی راستے بچیں گے۔

اول: مارشل لا لگایا جائے، کم از کم ایمرجنسی نافذ کر کے بذریعہ تشدد تحریک کو دبایا جائے۔

دوم: پی ڈی ایم کے کچھ مطالبات تسلیم کر لئے جائیں۔

مارشل لا لگانا بہت مشکل ہو گا۔ نہ تو عالمی سطح پر اس کو کوئی پذیرائی ملے گی نہ ملک کے اندر۔ جب جنرل مشرف نے مارشل لا لگایا تھا تو ملک میں کوئی سیاسی ہلچل نہ تھی۔ نوے کی دہائی ’غیر سیاسی‘ دہائی کہلا سکتی ہے۔ لوگ بیگانگی کا شکار تھے۔ یہ پراپیگنڈہ بھی بالکل غلط ہے کہ مٹھائیاں بانٹی گئی تھیں۔ ایسا کچھ نہیں تھا۔ ہاں مگر نواز شریف کے دفاع میں بھی کوئی حلقہ سڑک پر نہیں نکلاتھا (اس کے باوجود مشرف آمریت مارشل لا یا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی اصطلاح استعمال نہیں کر رہی تھی)۔ الٹا ان کی اپنی پارٹی کے اہم رہنما مشرف آمریت سے مل گئے۔ گجرات کے چوہدر ی خاندان میں اس ضمن میں پہل کی۔ اب نواز شریف شائد اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں۔

اب حالات اس لئے بھی مختلف ہیں کہ ملک کے اندر تحریک چل رہی ہے۔ پھر معاشی حالات اس قدر برے ہیں کہ آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرستالینا جارجیوا خود بھی آ جائے تو، کم از کم سرمایہ دارانہ بنیادوں پر، مسائل حل نہیں کر پائے گی۔ ایسے میں اگر دال چینی یا آٹے گھی کی قیمت بڑھے گی تو ذمہ دار مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو سمجھا جائے گا۔ ہائبرڈ جمہوریت کی وجہ سے آج کل تو درمیان میں عمران حکومت کا کُشن موجود ہے جو مارشل لا کی شکل میں موجود نہیں رہے گا۔

گو سیاست میں کسی بھی امکان کو رد نہیں کر نا چاہئے۔ اگر ایک انتہائی مایوس کن صورت حال (Desperate Situation) ہو تو پھر عموماً فیصلے بھی مایوس کن ہی لئے جاتے ہیں۔ اگر بات اس نظام کو بنانیو الوں اور چلانے والوں کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے، جو کسی خود رو عوامی تحریک کی شکل میں ہی ممکن ہے، تو بات مارشل لا تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ گو اس کا امکان کم ہے۔ مارشل کا تشدد بھی عوامی تحریک کو وقتی طور پر ہی دبا سکے گا۔ یہ دس سال والا مارشل لا ثابت نہیں ہو گا۔ ہر دفعہ افغان لاٹری نکلنا ممکن نہیں۔

دوسرا امکان ہے کہ پی ڈی ایم کے ساتھ سمجھتے بازی۔ ایسی صورت میں دونوں دھڑے نظام میں ساجھے داری پر راضی ہو جائیں گے ہاں البتہ اس بار سول قوتیں اتنی کمزور نہیں ہو ں گی…چونکہ معاشی پالیسی اور خارجہ پالیسی جیسے نقاط پر دونوں کے مابین کوئی بڑا اختلاف نہیں لہٰذا ایک سیاسی حلالہ ہو جائے گا جس میں سول قوتیں یہ بات ضرور منوا سکیں گی کہ ہائبرڈ جمہوریت کا موجودہ طریقہ کار لپیٹ دیا جائے۔

ترقی پسند قوتوں کے لئے یقینا ہائبرڈ جمہوریت کا خاتمہ ایک بہتر بات ہو گی لیکن اہم بات ان امکانات کو بڑھاوا دینا ہے کہ ممکنہ عوامی تحریک ایک نئی عوامی اور سیاسی قیادت کو جنم دے جس میں ٹریڈ یونین، طلبہ تحریک، خواتین اور سماجی تنظیمیں ہراؤل کا کردار ادا کر رہی ہوں۔ اسلام آباد کے دھرنے نے ایک امید دلائی ہے۔

نومبر کے مہینے میں حقوق خلق موومنٹ اور طلبہ نے لاہور میں اجتماعات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 8 مارچ کی تیاری بھی شروع ہے۔ فروری میں فیض امن میلہ بھی ہو گا جو گذشتہ دو تین سال سے بائیں بازو کا ایک عوامی اجتماع بن چکا ہے۔ آنے والے مہینو ں میں ہونے والے یہ اجتماعات ایک نیا موڑ بھی لے سکتے ہیں۔ بقول منیر نیازی: ایک آئندہ ہے جس کے بے شمار آغاز ہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔