فاروق سلہریا
پرانے زمانے میں،جھنڈے کا ایک اہم ابتدائی مقصد جنگ کے دوران نظم و ضبط برقرا رکھنا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ، جب قومی ریاست کا ابھار ہوا تو جھنڈا ایک ایسی علامت بن گیا جو قومیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے لگا۔
مندرجہ بالا تصویر سٹاک ہولم کے ڈسٹرکٹ سگتونا میں قائم ایک مارشل آرٹس کلب کی ہے۔ یہ کلب میرے گھر کے پاس ہی ہے۔ اس کا فرش سویڈش جھنڈے کے رنگوں میں ترتیب دیا گیا ہے۔ اگر سویڈن میں کہیں نیلا اور پیلا رنگ ایسے دکھائی دے تو اسے سویڈن کا جھنڈا ہی تصور کیا جاتا ہے۔
عام طور پر دائیں بازو کے لوگ سویڈن کا جھنڈا اٹھاتے ہیں،بعض موقعوں پر اپنے گھر پر لہراتے ہیں یا مختلف شکلوں میں نیلے پیلے رنگ کا استعمال کر کے اپنے رائٹ ونگ نظریات کا اظہار کرتے ہیں۔ دائیں بازو کے لوگ سرخ جھنڈا اٹھاتے ہیں۔
مندرجہ بالا تصویر میں جھنڈے کو فرش کے طور پر استعمال کرنے کا مقصد شائد دائیں بازو کے نظریات سے زیادہ سویڈش شناخت اجاگر کرنا ہے کیونکہ یہ مارشل آرٹس کلب ایک عالمی لیگ کا حصہ ہے۔سویڈش جھنڈے سے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ لیگ کا سویڈش سیکشن ہیں۔
جو بات بہر حال دلچسپ ہے،وہ یہ ہے کہ کسی نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ یہ تو ایک مثال ہے سویڈن میں جگہ جگہ ایسے مناظر دکھائی دیں گے۔ ذرا سوچئے اگر برصغیر کے کسی ملک میں اپنے ملک کے جھنڈے کو فرش بنا نے کی غلطی کسی سے سر زد ہو جائے تو کیا ہو؟
اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ سویڈن یا دیگر مغربی ریاستوں میں یہاں کی بورژوازی کو خود پراعتماد ہے۔قومیت ایک بورژوا جذبہ ہے۔پر اعتماد بورژوازی کو جعلی اقدامات کے ذریعے حب الوطنی نہیں جگانی پڑتی۔ میں نے مغربی یورپ کے کچھ ملک گھومے ہیں۔لندن میں رہا ہوں۔ یہاں عام طور پردیواروں پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ اپنے ملک سے پیار کرو۔نہ ہی ٹرکوں کے پیچھے اپنے ملک کی فوج کو سلام پیش کئے جاتے ہیں۔ باقی ملکوں کا تو پتہ نہیں، سویڈن میں اگر فلم دیکھنے جاو تو فلم سے پہلے ’پاک سر زمین‘ نہیں بجایا جاتا۔یہ سب علامتی باتیں قومی بورژوازی کے نظریاتی غلبے کا اظہار ہیں۔
ہندوستان،پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں ایک تو قومی ریاست کلونیل ازم نے اوپر سے مسلط کی۔ دوم، یہاں کی بورژوازی مکمل طور پر ناکام ہے۔ اس لئے کبھی جھنڈے کا سوال کھڑا کیا جاتا ہے تو کبھی ترانے کا۔ اس کے باوجود ان ملکوں کے نوجوان اچھے مستقبل کی تلاش میں خوفناک کشتیوں پر بیٹھ کر ملک سے فرار ہونے میں مصروف ہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔