خبریں/تبصرے

بھارتی کشمیر میں ضلعی ترقیاتی کونسلوں کے انتخابات مرکز کا ایک نیا تجربہ

راولاکوٹ (نامہ نگار) بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے پنچایتی راج ایکٹ 1989ء میں ترمیم کرنے کیلئے جموں کشمیر تنظیم نو ایکٹ کے تحت چوتھا حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے تحت ضلعی ترقیاتی کونسلوں کے براہ راست انتخاب کیلئے 8 مرحلوں پر مشتمل الیکشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ 28 نومبر کو الیکشن کے پہلے مرحلہ میں 43 نشستوں پر انتخاب کیلئے ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہوا۔ اس الیکشن کے ساتھ شہری بلدیاتی حلقوں اور دیہی پنچائتی حلقوں کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب بھی کروایا جا رہا ہے۔ یہ الیکشن آٹھ مرحلوں میں انیس دسمبر تک مکمل ہو گا جبکہ اکیس دسمبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔

یہ انتخابی مشق منی اسمبلی انتخابات کی طرح ہو گی جس میں دیہی آبادی کو شامل کیا جا رہا ہے۔ تاہم سیاسی حلقے اسے ایک نیا تجربہ قرار دے رہے ہیں، جس کے ذریعے سے جموں کشمیر کے باسیوں کو علاقوں، قبیلوں اور گروہوں میں تقسیم کیا جا ئے گا۔

قانون سازی میں تبدیلی کے بعد ہر ضلع کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کیلئے متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے 14 علاقائی انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا ہے، جو انتخاب کے بعد ان کونسلوں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ شہروں کی بلدیہ اور میونسپل کارپوریشن کی حدود ان حلقوں میں شامل نہیں ہو گی۔ قبل ازیں ضلعی منصوبہ بندی اور ترقیاتی بورڈ میں بلاک ڈویلپمنٹ کونسلوں کے چیئرپرسن، ممبران پارلیمنٹ، ریاستی اسمبلی کے ممبران اور شہری بلدیاتی اداروں کے چیئر پرسن شامل ہوتے تھے۔

ضلعی ترقیاتی کونسلوں (ڈی ڈی سیز) کے انتخابات میں جموں کشمیر کے ستر فیصد دیہی رائے دہندگان کو حق رائے دہی حاصل ہے، الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پنچایتوں (دیہی ترقیاتی ادارے) کیلئے 5.81 ملین اور شہری بلدیاتی اداروں کیلئے 1.69 ملین ووٹرز کو حق رائے دہی حاصل ہے۔

یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں منعقد کروائے جا رہے ہیں جب آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سیاسی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہیں۔ سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ سمیت ہند نواز سمجھے جانے والے درجنوں رہنماؤں کو حال ہی میں حراست سے رہائی ملی ہے۔ ہند مخالف سمجھے جانیوالے درجنوں رہنما اور سینکڑوں عام شہری ابھی بھی جیلوں میں مقید ہیں۔

گزشتہ سال آرٹیکل 370 کے خاتمے اور جموں کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے کے بعد بی ڈی سی (بلدیاتی) انتخابات میں سیاسی سرگرمیاں بحال کرنیکی کوشش مکمل طور پر ناکام ہو گئی تھی۔ قبل ازیں نومبر، دسمبر 2018ء میں پنچایتی انتخابات مکمل کروانے میں بھی ناکام ہو گئی تھی اور الیکشن کمیشن کے اپنے نتائج کے مطابق 61.5 فیصد پنچ اور سرپنچ کی نشستیں خالی رہ گئی تھیں جو منتخب نمائندوں کی تعداد سے دگنی تعداد بنتی تھی۔

نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ حسنین مسعودی کے مطابق موجودہ انتخابی مشق جموں کشمیر میں بیوروکریٹک حکمرانی کو نچلی سطح پر جمہوریت کو مستحکم کرنے کے نام پر جائز بنانے کی ایک کوشش ہے۔

پی ڈی پی کے رہنما نعیم اختر نے اس انتخاب کے قیام کو ضلعی اسمبلیاں بنانے کا اقدام قرار دیا ہے، جس کے ذریعے سے جموں کشمیر کی باقیات کی متفقہ آواز کو بھی ختم کر دیا جائے۔

ضلعی ترقیاتی کونسلوں کے انتخابات میں نہ صرف جموں میں فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیادی ڈالنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، بلکہ دوسری طرف پہاڑی، گوجری، جمووال، پیر پنجال، چناب خطے کے مابین تقسیم کو بھی بڑھاوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس سے سیاسی رہنماؤں کے خدشات کو کسی حد تک تقویت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ ان انتخابات کے ذریعے اسمبلی کی حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ضلعی ترقیاتی کونسل کے حلقوں میں سابق وزرا، ممبران اسمبلی اور ان کے قریبی عزیز انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

علیحدگی پسند سمجھی جانیوالی قیادت نے حسب معمول انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے لیکن کسی بھی متبادل کی عدم موجودگی کی وجہ سے فوجی جبر اور قبضے سے آزادی کیلئے جدوجہد میں قربانیاں دینے والے نوجوان بندوق کا راستہ اپنانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ انفرادی دہشت گردی کے ذریعے سامراجی جبر کے خلاف غم و غصے کا اظہار تو ہو سکتا ہے لیکن آزادی کی جدوجہد کو استوار کرنے کیلئے پھر متبادل نظریات کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے وسیع تر اتحاد کو قائم کیا جا سکتا ہے اور اس نظام کو شکست دیتے ہوئے ہر طرح کے سامراجی جبر اور فوجی قبضے کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے نوجوانوں نے ماضی میں سیاسی جدوجہد کے ذریعے نہ صرف جموں کشمیر بھر میں بلکہ بھارت کے طول و عرض تک اپنی آواز کو پھیلایا ہے اور بھارت میں طلبہ اور نوجوانوں کی تحریک کو ایک نئی جہت فراہم کرنے کا باعث بنے ہیں۔ جلد یا بدیر جموں کشمیر کے نوجوان اور محنت کش اپنے تجربات سے نتائج اخذ کرتے ہوئے پھر ایک تحریک میں اپنا اظہار کریں گے، جو نہ صرف جموں کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار کرے گی بلکہ اس خطے کی تمام مظلوم و محکوم قومیتوں کی آزادی اور انقلاب کی منزل کا تعین کریگی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts