طاہر کامران
ڈاکٹر جمیل جالبی (1929-2019ء) جو کسی تعارف کے محتاج نہیں، کے اعزاز میں کتاب ”ارمغانِ جمیل“ مرتب کرنے پر پروفیسر زاہد منیر عامر داد کے مستحق ہیں۔ ”ممتاز مورخ، بہترین نقاد اور اعلیٰ درجے کے دانشور“ کی یاد میں اس طرح کی کتاب تحریر اور تدوین کرنا بلاشبہ ایک قابل تحسین کوشش ہے۔
پروفیسر عامر کا اپنے فارغ التحصیل طلبہ کو اس منصوبے میں شامل کرنا اس سلسلے میں خاص طور پر قابل ذکر اقدام ہے۔ ان میں سے ایک درجن کے قریب طلبہ کے نام اس کتاب میں درج ہیں۔ اس سے انہیں یقیناً سنجیدہ اردو نثر لکھنے کے فن کی مطلوبہ تربیت فراہم ہوئی ہو گی، جو نوجوان اسکالرز کیلئے حاصل کرنا از حد ضروری ہے۔ کتاب میں شامل تمام ابواب بڑے دلنشیں اور موثر انداز میں تحریر کئے گئے ہیں۔ ان سے پہلے پروفیسر عامر کا تحریر کردہ مکمل تعارف ہے، جو جالبی صاحب کی زندگی، ان کی ذاتی خوبیوں اور اردو زبان و ادب کے لئے ان کی خدمات کا ایک جامع جائزہ پیش کرتا ہے۔ کتاب میں ”ارمغان جالبی“ کے مدیران کے نام جالبی صاحب کے عکسی خطوط بھی شائع کئے گئے ہیں جو میرے نزدیک تاریخ کا ایک قابل قدر حوالہ ہیں۔
یہ جاننا کافی حد تک ناگوار ہے کہ جالبی صاحب جیسی قد آور شخصیات کو اس دنیا نے مناسب طور پر الوداع نہیں کہا۔ اخبارات کے آخری صفحے پر کہیں انتقال کی چھوٹی سی خبر اور ان کی خدمات کے بدلے چند ایک تعزیتی مضامین کافی سمجھے جاتے ہیں۔ علمی اور ادبی شخصیات جب دنیا سے چلی جاتی ہیں تو ادبی، سماجی اور ریاستی سطح پر ان سے کچھ زیادہ ہی بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔
ریاست انہیں ستارہ امتیاز یا ہلال امتیاز جیسے ایوارڈ دینا ہی کافی خیال کرتی ہے۔ جالبی صاحب کو بھی یہ ایوارڈ ملے تاہم گذشتہ کئی برسوں سے یہ ایوارڈز اپنی قدر کھو چکے ہیں کیونکہ ماضی میں بہت سے تیز طرار لوگوں کو بھی ان سے نوازا گیا۔ پوری دنیا میں علم کی آبیاری کرنے والے نامور افراد جب دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں، تو مرحوم کی زندگی اور ان کے کارناموں پر مبنی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ان کے کام پر کچھ تعمیری تنقید بھی شامل ہوتی ہے۔
جالبی صاحب کے پائے کی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا یہ سب سے موزوں طریقہ ہے۔ یہ کہنا اضافی ہو گا کہ ان کی اردو زبان اور ادب کے لئے خدمات حیران کن حد تک عمدہ رہیں۔ میرے خیال میں جالبی صاحب نے ایک زندگی میں جو کام کیا کوئی اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔
حافظ محمود شیرانی اور مولوی محمد شفیع بھی اس قبیل میں شامل ہیں لیکن انہوں نے قیام پاکستان سے قبل اپنے بیشتر علمی منصوبے پورے کر لئے تھے۔ جالبی صاحب کی تحریر کردہ چار جلدوں پر مشتمل اردو ادب کی تاریخ لوگوں کے اذہان سے انہیں فراموش نہیں ہونے دے گی۔ جالبی صاحب کی یہ کتاب جس حجم، درجے اور افادیت کی حامل ہے، ادب کا دکھاوا رکھنے والے بیشتر لوگوں کے لیے تو اسے پڑھنا بھی دشوار ہو گا۔
اپنی کتاب ”اردو ادیب کی تاریخیں“ میں ڈاکٹر گیان چند نے 50 سے زیادہ اردو تواریخ کا مطالعہ کیا اور جالبی صاحب کی تاریخ کو ”اردو ادب اور اس کے رجحانات میں لکھی گئی تمام تاریخوں میں سب سے زیادہ متاثر کن کام“ قرار دیا۔ اردو ادب کی تاریخ پر جالبی صاحب کے کام کو جس چیز نے منفرد بنایا، وہ ان کا کلاسیکی ادب کو معاشرتی اور سیاسی تناظر فراہم کرنا تھا۔ جالبی صاحب اردو ادب کی تاریخ میں ترمیم و اضافہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتے مگر خراب صحت نے انہیں اس کی اجازت نہ دی۔ پروفیسر زاہد منیر عامر میں جالبی صاحب کے اس ارادے کو مکمل کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور انہیں اس میں دو جلدوں کا اضافہ کرنا ہو گا۔
جالبی صاحب نے 90 سال کی عمر پائی۔ انہوں نے بھرپور اور تعمیری زندگی گزاری۔ یہ امر باعث تسکین ہے کہ کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ سنٹر قائم کیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ مرکز ترقی کرے گا اور اس کے ساتھ جالبی صاحب کا نام ہمیشہ باقی رہے گا۔
یوسف زئی پٹھانوں کے قبیلے سے تعلق رکھنے اور علی گڑھ میں رہنے والے محمد جمیل خان، سہارنپور سے میٹرک پاس کرنے کے بعد جمیل جالبی کے نام سے مشہور ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بیچلر کی سند حاصل کی۔ وہ پاکستان کو باضابطہ طور پر آزاد ریاست قرار دیئے جانے سے ایک دن قبل کراچی پہنچے۔ کراچی میں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی، انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد سندھ یونیورسٹی سے غلام مصطفی خان کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی مکمل کی۔
جالبی صاحب پیشے کے لحاظ سے مدرس نہیں تھے۔ انہوں نے محکمہ انکم ٹیکس میں کام کیا۔ تاہم انہوں نے اردو ادب سے اپنا لگاؤ زندہ رکھا۔ اس کے لئے دو مختلف شعبوں کے تقاضوں کے مابین توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ادبی جریدے ”نیا دور“ کا اجرا کیا۔ 1950ء سے 1954ء تک ماہنامہ ”ساقی“ میں شریک مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ کہنا بھی اضافی لگتا ہے کہ انہوں نے بطور مدیر اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا اور کئی اردو کلاسیکی ادب کے قارئین کے افق کو مزید وسیع کیا۔ میر تقی میر اور انشا اللہ خان جرات پر ان کا کام ان کے عزم و کمال کی عمدہ مثال ہے۔
ان کی شخصیت غیرمعمولی دانشورانہ اور انتظامی مہارتوں کا ملاپ تھی جس کا عملی مظاہرہ اس وقت ہوا جب انہیں 1983ء میں کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ وہ 1987ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان برسوں کے دوران انہوں نے بہت سے اہم اقدامات کئے جس کے نتیجے میں تعلیمی معیار اور لائبریری میں نمایاں بہتری آئی۔ انہوں نے انڈیا آفس لائبریری سے اردو کے نادر نسخوں کی 250 سے زیادہ مائیکرو فلمیں حاصل کیں تاکہ ادبی محققین کو غیر شائع شدہ قیمتی ذرائع مہیا کئے جا سکیں۔ جب جالبی صاحب کو مقتدرہ قومی زبان کا صدر نشین بنایا گیا تو انہوں نے میریئم ویبسٹر لغت کی طرز پر انگریزی سے اردو لغت مرتب کی۔ انہوں نے اپنے دور صدارت میں ہی اس بھاری بھرکم کام کو مکمل کر کے ثابت کیا کہ ایسا ممکن ہے۔
جالبی صاحب کو پاکستانی ثقافت میں بہت دلچسپی تھی۔ ان کی کتابیں ’پاکستانی کلچر’،’ادب‘، ’کلچر اور مسائل‘ اور’پاکستان: دی آئڈینٹٹی آف کلچر‘ انتہائی بصیرت انگیز ہیں۔ ادبی تنقید بھی ایک ایسا شعبہ تھا جو ان کی علمی مزاج کو راغب کرتا تھا اور انہوں نے ”ارسطو سے ایلیٹ تک“ اور ”نئی تنقید“ جیسی کچھ اہم کتابیں بھی تحریر کیں۔ جالبی صاحب نے دو درجن کتابیں اور مقالے لکھے اور ان کی تدوین کی جو ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ان کے ناقدین کیا کہتے ہیں، ان کی علمی خدمات انھیں ان لوگوں کی یادوں میں زندہ رکھے گی جو اردو سے بطور زبان و ادب محبت کرتے ہیں۔
بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے