پاکستان

لاپتہ بلوچ افراد کا دکھ بطور ڈریس آرٹ

محمد اکبر نوتزئی

کوئٹہ میں پرورش پانے کے دوران 24 سالہ ہانی بلوچ نے وہ خوشگوار اور محفوظ بچپن نہیں دیکھا جسے زیادہ تر لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کی بجائے وہ اپنے ہی خاندان کے افراد سمیت لاپتہ افراد کی کہانیوں میں گھری ہوئی تھی، جب کہ شہر میں دھماکے اور حملے نہ صرف شہر بلکہ پورے صوبے کی خراب سکیورٹی صورتحال کی طرف بار بار توجہ مبذول کراتے تھے۔

ہانی نے فنون لطیفہ، خاکہ نگاری، ڈرائنگ اور کپڑوں کے ساتھ تجربے کرتے ہوئے اس صورتحال سے فرار حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں بچپن سے ہی ہمیشہ فنکارانہ تجربات کرتی رہی ہوں، اور اسی وجہ سے میں بہت پہلے سے ہی جانتی تھی کہ میں اس کام کو بطور پیشہ اختیار کر سکتی ہوں۔‘

بلوچستان یونیورسٹی سے فنون لطیفہ میں گریجویشن کرنے کے بعد ہانی نے حال ہی میں اپنے مقالے کی نمائش کی، جس کو خاص طور پر سوشل میڈیا پر کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا موضوع ’لاپتہ افراد‘ تھا۔

وہ اپنے خاندان کے افراد کی جبری گمشدگیوں کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’یہ سب کسی حد تک میری نفسیات میں پیوست تھا۔ اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہ صوبے کے زیادہ تر بلوچوں کی کہانی ہے۔ یہی چیز ہے جس نے مجھے اپنے مقالے کے لیے آئیڈیا دیا۔‘

اپنے مقالے کے لیے ہانی نے روایتی بلوچی لباس بنایا، لیکن اس پر لاپتہ افراد کے خاکے بنائے۔ گھر والوں کے ساتھ ساتھ ایک ٹیچر نے بھی یہ اصرار کیا کہ وہ اپنے مقالے کے لیے کسی اور چیز پر توجہ مرکوز کریں، لیکن ان کا ارادہ پختہ رہا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جو لباس میرے مقالے کا حصہ ہیں،مجھے ان کو مکمل کرنے میں پانچ ماہ لگے۔ میں نے بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے ایسا کرنے پر خود کو مجبور محسوس کیا،،کیونکہ ان کے خاندان پہلے ہی ریاست کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہیں۔‘

جب ہمارا ہانی سے سامنا ہوا تو وہ بلوچی لباس میں ملبوس تھیں اور انہوں نے چادر اوڑھ رکھی تھی۔ انہوں نے سریاب روڈ سے تھوڑے فاصلے پر قمبرانی روڈ پر اپنی رہائش کے بارے میں بات کی جو کبھی ٹارگٹ کلنگ اور عسکریت پسندوں کے حملوں کے لیے بدنام تھی۔

7بہن بھائیوں میں سے ایک ہونا ان کے لیے ایک خوش قسمتی کی باعث بنا، کیونکہ ان کے پاس ایک معاون خاندان تھا جس نے انہیں تعلیم حاصل کرنے کے اپنے خواب کو مکمل کرنے کے قابل بنایا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد اب ریٹائر ہو چکے ہیں، لیکن وہ ان کے لیے سب سے بڑا سہارا رہے ہیں۔ وہ فخر کے ساتھ کہتی ہیں کہ’وہ سوشل میڈیا پر میرے ہر ایک انٹرویو کو کئی بات دیکھتے ہیں۔“

تاہم یہ سب ہمیشہ سے اتنا آسان نہیں رہا۔ وہ تب ہی فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں، جب ان کے ایک بڑے مرد کزن نے فائن آرٹس کو یونیورسٹی میں بطور مضمون اپنایا۔ وہ کہتی ہیں کہ دوسری صورت میں خاندان یہ چاہتا تھا کہ وہ ایک زیادہ روایتی پروگرام میں داخلہ لیں، جو ’ملازمت کے بہتر مواقع‘کا باعث بن سکے۔

دوسری طرف وسائل محدود تھے اور ہانی کو پدرانہ معاشرے سے بھی نمٹنا پڑتا تھا، جو ان کے چاروں طرف تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ یونیورسٹی تک پہنچنے کے لیے رکشہ یا لوکل بس پکڑنے کے لیے انہیں ہر روز25منٹ پیدل چلنا پڑتا تھا۔ وہ جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’شہر کے مرد ہمیشہ مجھے گھورتے رہتے تھے، جس سے مجھے بے چینی محسوس ہوتی تھی۔‘

ہانی کے مطابق بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ اب ایک ایسی لڑکی ہونے کی وجہ سے عام گپ شپ کا موضوع بن گئیں، جو کسی مرد کے بغیر اکیلی یونیورسٹی جا کر شرمندگی کا باعث بنتی ہے اور ان کے مطابق یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

دریں اثناء ان کے لیے اپنے فنکارانہ کام کے لیے درکار مختلف آلات اور مواد کو حاصل کرنا کبھی بھی آسان نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے دوستوں اور کزنوں سے قرض بھی لیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیشہ کی طرح میں اپنے والد کی شکر گزار ہوں کہ ان کی وجہ سے میں نے کچھ لوگوں کے قرض ادا کیے اور اس کے ساتھ میں ضرورت کے وقت فنڈز فراہم کرنے کے لیے اپنے دوستوں اور خاندان کی بھی شکر گزار ہوں۔‘

ہانی کو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے شہر اور صوبے کے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے نے بے شمار دیگر لوگوں کی طرح ان کے ذہنی سکون اور تحفظ کے احساس کو بھی تباہ کر دیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کے افراد مبینہ طور پر ریاست کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق’میں ان تجربات کی وجہ سے خوف اور اضطراب کی حالت میں پروان چڑھی ہوں۔ یہ خوف مجھے اپنے فن کے ذریعے اس مسئلے کو اٹھانے کا یقین بھی فراہم کرتا ہے۔‘

اب وہ اپنے مقالے کے لیے کیے گئے کام کی نمائش کے بعد خاص طور پر سوشل میڈیا پر مقبول ہو گئی ہیں۔ اگرچہ ہانی اس شہرت کو اپنی ترقی کے طور پر دیکھ رہی ہیں، لیکن ان کے والدین اس کی وجہ سے پریشان ہیں۔

ہانی کی والدہ محمودہ نے نمائش میں شرکت کی اور مختلف صحافیوں اور نیوز پلیٹ فارمز کی جانب سے ان کے انٹرویو کے دوران وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑی رہیں۔ جیسا کہ ہانی یاد کرتی ہیں کہ ان کی ماں نمائش میں خوش بھی تھیں اور اداس بھی۔ ہانی بتاتی ہیں کہ ’میری ماں نے مجھے بتایا کہ وہ میرے لیے خوفزدہ ہیں، کیونکہ میرے کام کے نتیجے میں میرے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔‘

ایک معمولی گھرانے سے آنے کے باوجود، فنون سے ان کی غیر معمولی وابستگی نے انہوں ایک فنکار اور ایک کارکن کے طور پر اپنی شناخت بنالی۔ تاہم، جیسا کہ ہانی نے بیان کیا ہے، رکاوٹیں باقی ہیں۔ بلوچستان میں پوسٹ گریجویٹ آرٹس پروگرام نہیں ہے اور ہانی کو کم از کم اپنے سفر کو جاری رکھنے کے لیے شہروں میں منتقل ہونا پڑے گا۔

ہانی نے پہلے ہی لاہور کے نامور نیشنل کالج آف آرٹس پر اپنی نگاہیں جما رکھی ہیں۔ تاہم وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ خیال دور کی بات ہے، کیونکہ ان کے خاندان کے پاس وسائل کی کمی ہے اور انہیں اپنے مقالے کے متنازعہ موضوع کی وجہ سے کوئی حکومتی اسکالرشپ یا مدد ملنے کا امکان بھی نہیں ہے۔

ہو سکتا ہے یہ بہت اچھا ہو، لیکن ہانی کو یقین ہے کہ کائنات ان کے مقصد کو حاصل کرنے اور انہیں کامیابی کے راستے پر مضبوطی سے ڈالنے میں ان کی مدد کرے گی۔ اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے وہ کہتی ہیں کہ جب انہوں نے اپنا مقالہ پیش کیا، تو ان کے نگرانوں نے بتایا کہ اس کا آؤٹ پٹ کافی نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’چار دنوں کے اندر میں نے اس خیال کو پیش کرنے کے لیے دو مزید فریم لائے۔‘

ایک فریم میں سفید پرندے کو دکھایا گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سفید پرندے کا انتخاب کیوں کیا، تو ان کا جواب تھاکہ’سفید پرندہ امن، خوشحالی اور یکجہتی کو ظاہر کرتا ہے اور میں اپنے بلوچ عوام کے لیے یہی چاہتی ہوں۔‘

Akbar Notezai
+ posts

اکبر نوتزئی کوئٹہ میں رہتے ہیں اور روزنامہ ڈان سے منسلک ہیں۔