عمار علی جان
ماروی سرمد کے خلاف خلیل الرحمٰن قمر نے جو زبان استعمال کی، اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں عورت کو جسمانی، جنسی اور جذباتی بد سلوکی کا نشانہ بنانا معمول کی بات ہو وہاں خلیل الرحمٰن قمر کی بد تمیزی غیر متوقع نہیں۔ خلیل الرحمٰن قمر محض ایک فرد کا نام نہیں۔ یہ اس بیمار ذہنیت کا نام ہے جو اس معاشرے کے مردوں میں دور تک سرایت کئے ہوئے ہے۔
’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے نے تو بعض مردوں کا ذہنی توازن ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے کیونکہ بہت سوں کے خیال میں اس کا مطلب ہے کہ خواتین جنسی آزادی مانگ رہی ہیں۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس نعرے کا مطلب ہے کہ عورتیں جنسی تشدد کے خلاف یہ نعرہ لگا رہی ہیں جس کا شکار ہزاروں عورتیں اور بچے پورے ملک میں بن رہے ہیں۔ ان مردوں کے ذہن میں بھری غلاظت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’اپنا کھانا خود گرم کرو‘ کا مطلب بھی ان کے نزدیک جنسی آزادی ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح ’اپنا کھانا خود گرم کرو‘ ایسا مہذب سا نعرہ، جس کا مطلب ہے کہ اس اکیسویں صدی میں مرد ایک بالغ انسان کی طرح برتاؤ رکھے، بھی جنسی آزادی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ کہا گیا کہ اس کا مطلب ہے عورتیں چاہتی ہیں کہ مرد باورچی خانے میں کام کریں اور وہ چکر چلاتی پھریں۔
دراصل یہ سب ’تشریحات‘ اس بات کی علامت ہیں کہ وہ مرد سخت اضطراب کا شکار ہیں جو غیرت کے نام پر عورت کے جسم پر کنٹرول برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اسی اضطراب کا اظہار ہے کہ جب عورتیں مرد کی سفلی انا کے دائرے سے نکل کر کسی آزادی کا اظہار کرتی ہیں تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ سلسلہ اب مزید نہیں چلے گا۔ عورتیں اپنے آپ کو نہ صرف بطور ڈاکٹر، صحافی، استاد، شاگرداور سیاستدان کے طور پر منوا رہی ہیں بلکہ بہت سے دیگر شعبوں میں بھی اپنا سکہ منوا رہی ہیں۔
بطور معاشرہ ہمارے پاس ایک راستہ تو یہ ہے کہ ہم ان بدمعاشوں کا ساتھ دیں جو اپنا حق منوانے والی خواتین کے خلاف تشدد کے ذریعے سے ہمیں ماضی کے اندھیروں میں لے جانا چاہتے ہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم ان خواتین کے ساتھ کھڑے ہوں جو عورت مارچ اور اس قسم کی کاروائیوں کے ذریعے ایک ایسی دنیا تعمیر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس میں سب برابر ہوں اور جہاں دلیل کی حکمرانی ہو۔
تحریکِ نسواں ہی وہ خطِ تقسیم ہے جو تہذیب کو بربریت سے، یکجہتی کو خوف سے اور ماروی سرمد کو خلیل الرحمٰن قمر سے ممتاز کرتی ہے۔