نوٹ: ہم ’جدوجہد‘ کا پہلا اداریہ دوبارہ شائع کر رہےہیں۔ یہ ادارتی نوٹ ’جدوجہد‘ کی پالیسی اور حکمت عملی پر مبنی ہے۔ اس موقع پر ہم اعادہ کرتے ہیں کہ جس عزم کے ساتھ اس روزنامہ کا اجراء کیا گیا تھا، اسی عزم اور حوصلے کے ساتھ جدوجہد کی اشاعت کا یہ سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
اداریہ روزنامہ جدوجہد
انقلابی سیاسی کارکن ہوں یا محنت کش طبقہ، جب جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو ہی فتح کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ ایک مختلف نتیجے کی توقع جنم لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصروف بر جدوجہد افراد، گروہ، جماعتیں اور طبقے ہمیشہ امید پرست ہوتے ہیں۔
مذکورہ بالا ادراک کو ہی بنیاد بنا کر ہم روزنامہ جدوجہد (آن لائن) کا آغاز کر رہے ہیں۔
ہم ہیں کون؟ روزنامہ جدوجہد ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کی ایک کاوش ہے۔ یہ کارکن اور صحافی مختلف سیاسی تنظیموں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور بعض افراد سیاسی تنظیموں سے ہٹ کر آزادانہ حیثیت میں بھی ‘روزنامہ جدوجہد’ کی اشاعت میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان سب کارکنوں کے مابین مشترک قدر یہ ہے کہ یہ سب سوشلزم کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ ‘روزنامہ جدوجہد’ کی اشاعت میں شامل تمام ادارتی عملہ رضاکارانہ بنیادوں پر کام کرے گا۔ روزنامہ جدوجہد کا تعلق کسی مخصوص سیاسی تنظیم سے نہیں ہو گا۔ مالی لحاظ سے روزنامہ جدوجہد کی اشاعت اور ترویج کے لئے ہم اپنے قارئین اور ہمدردوں پر انحصار کریں گے۔
ادارتی لحاظ سے روزنامہ جدوجہد پاکستان میں ترقی پسند تحریک کی مشترکہ آواز بن کر ابھرے گا۔ شاید اس سے بھی اہم بات ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ہم معیاری صحافت کو نہ صرف فروغ دیں گے بلکہ مین سٹریم اور کارپوریٹ میڈیا کا متبادل بن کر بھریں گے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ طبقاتی نقطہ نظر سے حالات و واقعات کا تجزیہ پیش کریں۔ نظریاتی طور پر ہمارا یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے کہ ہم غیر جانبدار ہیں۔ اس کے برعکس ہم کھل کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت، ترقی پسندانہ سوچ اور مظلوم و محنت کش طبقات کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ویسے بھی ‘غیرجانبداری’ کا جو نعرہ کارپوریٹ میڈیا لگاتا ہے وہ سراسر منافقت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ صحافت اور تحقیق میں ‘غیرجانبداری’ نہ تو ممکن ہوتی ہے اور نہ ہی اسکی کوئی حقیقت ہے۔ لہٰذا اصولی طور پر ہماری ادارتی پالیسی یہی ہے کہ ہم برملا جانبدار ہیں لیکن حقائق کو توڑمروڑ کر پیش نہیں کریں گے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ روزنامہ جدوجہد کا دامن تمام ترقی پسند لکھاریوں کو وا ملے گا۔ البتہ جدوجہد کے صفحات لینن کے بقول ہر قسم کی ‘طفلانہ بیماریوں’ سے پرہیز برتیں گے اور یہ محض اتفاق کی بات نہیں کہ ہم ‘روزنامہ جدوجہد’ کا اجرا ولادیمیر لینن کی سالگرہ کے موقع پر یہ کہتے ہوئے کر رہے ہیں کہ جدوجہد ہی امید کا سر چشمہ ہے۔