اسلام آباد (نامہ نگار) پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک کی جانب احتجاجی مارچ کیا، پولیس نے مارچ کے شرکا کو روکنے کی کوشش کی لیکن شرکا مارچ رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے بڑی تعداد میں ڈی چوک پہنچ گئے جہاں بھی رات گئے تک دھرنا جاری تھا۔
بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین گزشتہ 6 روز سے اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے تھے۔ منگل کے روز لاپتہ افراد کے لواحقین نے ڈی چوک اسلام آباد کی طرف احتجاجی مارچ کیا اور ڈی چوک میں پر امن دھرنا دے دیا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ان کے عزیزوں کو بازیاب کیا جائے اور اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کر کے ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور اگر وہ بے قصور ہیں تو انہیں رہا کیا جائے۔
سوشل میڈیا پر بلوچ لاپتہ افراد سے متعلق پیجز سے یہ اطلاع بھی دی جا رہی ہے کہ 3 سال سے لاپتہ نوجوان جہانزیب قمبرانی کی والدہ اچانک بے ہوش ہوئیں اور انکی موت واقع ہو گئی ہے، وہ احتجاج میں شریک تھیں اور احتجاج کے دوران ہی ان تک یہ افواہ پہنچی کے انکے بیٹھے کی موت واقع ہو گئی ہے، جس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئیں اور بعد ازاں انکی موت واقع ہو گئی۔ تاہم ابھی تک احتجاج میں شریک کسی فرد کی طرف سے اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی۔ ایک میڈیا ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے حسیبہ قمبرانی نے انکے بے ہوش ہو جانے کی تصدیق کی تھی۔
بلوچ لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ میں پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے نمائندگان بالخصوص سینیٹر فرحت اللہ بابر، پی ٹی ایم سے منسلک ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ، مسلم لیگ ن کے رہنماؤں، عوامی ورکرز پارٹی اور دیگر ترقی پسند تنظیموں کے رہنماؤں نے اظہار یکجہتی کیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے بھی احتجاجی کیمپ میں شرکت کی اورتمام مظلوم قومیتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کے عزم کا اعادہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ ”پاکستان کی تمام مظلوم قومیتوں کے دکھوں اورتکالیف کی آواز اٹھا رہے ہیں اور ہمیں یہ لڑائی مل کر لڑنی ہو گا۔ کشمیر کی آواز اقوام متحدہ میں تو اٹھائی جا رہی ہے لیکن اپنے گھر میں مظلوم قومیتوں کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی کشمیری عوام کے ساتھ بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ انکے وسائل اور زمین میں دلچسپی رکھتے ہیں۔“
بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف ان سے مذاکرات کریں اور انکے عزیزوں کوبازیاب کروانے کی یقین دہانی کروائیں۔ احتجاج میں شریک لاپتہ ایک سال سے لاپتہ نوجوان کی بہن حسیبہ قمبرانی نے ایک میڈیا ادارے سے گفتگو کے دوران کہا کہ ”ہم 6 دن سے پریس کلب کے سامنے بیٹھے تھے، 11 سال سے کوئٹہ میں احتجاج کیمپ لگا رکھا ہے، لیکن ہمارے مطالبات پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہزاروں خاندان اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکمران ہمارے پاس آئیں اور ہمیں بتائیں کے ہمارے لوگ کہا ہیں۔ ہم نے تمام طریقہ اپنا لئے ہیں، اس وقت ہم ڈی چوک اسلام آباد میں بیٹھے ہیں۔ اگر ہمارے عزیزوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں قانون کے سامنے پیش کیا جائے انہیں سزائیں دی جائیں لیکن جبری طور پر گمشدہ کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے۔ اگرہمارے عزیز بے قصور ہیں تو انہیں رہا کیا جائے لیکن انہیں سامنے تو لایا جائے کہ وہ کہا ں ہیں۔“
لاپتہ افراد کے لواحقین کے اس احتجاج کے قائدین میں سے ایک نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ”590 کیسوں کی فہرست ہم نے دے رکھی ہے جن میں سے 320 کے قریب بازیاب کروائے گئے ہیں، اس کے علاوہ بھی فہرستیں موجود ہیں۔ 5 لوگوں کو چھوڑا جاتا ہے تو 5 مزید کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جو لوگ بھی ہیں انہیں قانون کے سامنے پیش کیا جائے۔ جبری گمشدگیاں آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ آئین اور قانون کے تحت کسی نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے اور اگر وہ بے قصور ہے تو اسے رہا کیا جائے۔“