پاکستان

ارطغرل غازی پاپولسٹ حکومت کا تحفہ

عامر رضا

23 مارچ کی پریڈ جو کہ 25 مارچ کو منعقد کی گئی اس میں ترکی کے لڑاکا طیارے اور فوجی بینڈ نے بھی شرکت کی۔ بینڈ نے اس موقع پر خصوصی طور پر ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی کی دھن بھی بجائی۔ ایسے موقع پہ ایک ڈرامہ سیریل کی دھن بجانا اپنے اندر بہت سے معنی رکھتا ہے۔ یہ ڈرامہ پاکستا نیوں کو پاپولسٹ تبدیلی سرکار کا وہ تحفہ ہے جو اسے ترکی کی پاپولسٹ سرکار نے تحفے میں پیش کیا ہے۔

یہ ڈرامہ ترکی کے سرکاری ٹی وی’ٹی آر ٹی‘ کی پروڈکشن ہے۔ ٹی آر ٹی ترکی میں پاپولسٹ سیاسی انجینئرنگ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے جو کہ عوام کے ذہنوں میں خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کے تصور کی آبیاری کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں جو ڈرامے ترکی کے میڈیا سکالرز کے لیے دلچسپی کا موضوع بنے ہوئے ہیں ان میں ارطغرل اور پائے تخت عبدالحمید شامل ہیں۔

ڈرامہ سیریل ارطغرل ترکی اور پاکستان میں مقبول عام ہے۔ اس مقبولیت میں جہاں اس کی پروڈکشن کا حصہ ہے وہاں اس ڈرامے کے گرد لپٹی ہوئی سیاست اور سیاسی ماحول بھی اہم عناصر ہیں۔ کیونکہ یہی ڈرامہ سیریل اگست 2015ء میں ہم ستارے پہ ٹیلی کاسٹ ہونی شروع ہوئی لیکن مقبول نہیں ہو سکی۔ کیا وجہ ہے کہ 2019ء میں یہ مقبول عامہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس وجہ کو سمجھنے کے لیے اس ڈرامہ سیریل اور ملکی سیاست میں اس کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

میڈیا سکالرز کے مطابق ٹی وی کی سکرین ہمارے ذہنوں کی آبیاری کرتی ہے۔ یہ ہمارے گرد ایک ایسی حقیقت تشکیل دیتی ہے جس کے اندر ہم سوچتے سمجھتے ہوئے یا پھر انجانے طور پر رہنا شروع کر دیتے ہیں۔

ترکی کی میڈیا سکالر ڈاکٹر ضنم چیویک کے مطابق رائٹ ونگ پاپولسٹ حکومتیں میڈیا کو ایسے استعمال کرتی ہیں کہ وہ میڈیا کے بنیادی فنکشن انٹرٹینمنٹ اور انفارمیشن کے درمیان موجود باریک سی لائن کو ختم کر دیتی ہیں۔ ایک سکالر روتھ وڈیک کے مطابق جب سیاست کی داستانوی تشکیل کی جاتی ہے تو انٹرٹینمنٹ ناظرین کے لیے ایک ایسی حقیقت کی تعبیر کرتی ہے جو موجودہ دور کی سوسائٹی کا سراب پیدا کرتی ہے۔ کچھ ایسا ہی سراب پاکستان میں یہ ڈرامہ سیریل پیدا کر رہی ہے۔

ترکی میں اردگان کی پاپولسٹ حکومت اور ہماری پاپولسٹ تبدیلی سرکار میں بہت سی مماثلتیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ روتھ وڈیک نے پاپولسٹ حکومت کے جو خواص گنوائے ہیں ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔ رائٹ ونگ پاپولزم کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندہ ہے۔ وہ سوسائٹی کی ساخت میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خود کو معاشرے کا نجات دہندہ قرار دیتی ہے جیسا کہ تحریک انصاف پاکستان کو بچانے اور نیا پاکستان بنانے کی دعویدار ہے۔

رائٹ ونگ پاپولزم ایسے سیاسی طریقہ کار کو اختیار کرتا ہے جس کی مطابقت مختلف نظریات کے ساتھ بنائی جا سکتی ہے۔ رائٹ ونگ سیاسی جماعتیں میڈیا کو بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔ اس کا اندازہ پاکستان میں تحریک انصاف کی الیکشن ایڈ کمپئین اور دھرنے کے دنوں میں میڈیا کوریج سے لگایا جا سکتا ہے۔

پاپولسٹ سیاسی جماعتوں کا فوکس کرشماتی لیڈر شپ پہ ہوتا ہے جو عام طور پر مرد ہوتی ہیں جن سے پدر سری کے ساتھ ساتھ روحانی خصوصیات بھی منسوب کر دی جاتی ہیں۔ جیسے عمران خان کے ساتھ وجیہہ اور صادق و امین ہونا منسوب کر دیا گیا ہے۔ ایسی ہی حالت ترکی میں طیب اردگان کی ہے۔

پاپولسٹ لیڈران خود کو عوام کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں اور ان کا جو ش خطابت کارکردگی کے گرد گھومتا ہے۔ پاپولسٹ لیڈران اس بات کے دعویدار ہوتے ہیں کہ وہ عوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہی نجات دہندہ ہیں۔ یہ لیڈر سوسائٹی کو دو حصوں میں بانٹ دیتے ہیں ایک حصہ حقیقی عوام پر مشتمل ہوتا ہے اور معاشرے کا دوسرا حصہ جو ان سے اتفاق نہیں کرتا غداروں پہ مشتمل ہوتا ہے۔

یہ پاپولسٹ نکات پاکستان کی تبدیلی اور طیب اردگان کی سرکار کے درمیان مشترک ہیں۔ یہ پاپولسٹ حکومتیں ٹی وی کو ایک سیاسی و سماجی انجینئرنگ کے آلے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے سرکاری ٹی وی مشترکہ طور پر ارطغرل غازی کو نشر کر رہے ہیں۔

اس ڈرامہ سیریل کی ہر قسط کے آغاز میں جو ایڈٹیوریل نوٹ چلایا جاتا ہے اس کے مطابق ”ارطغرل غازی تیرھویں صدی کے اناطولیہ (ترکی) کی تاریخ سے ماخوذ ایک عظیم الشان داستان ہے۔ ایمان و انصاف اور محبت کی روشنائی سے لکھی ایک بہادر جنگجو کی کہانی ہے جس نے اپنی ثابت قدمی اور جرات سے نہ صرف اپنے قبیلے بلکہ تمام عالم اسلام کی تقدیر بدل ڈالی۔ اوغوز ترکوں کے خانہ بدوش کائی قبیلے کو ایک ایسے وطن کی تلاش تھی جہاں ان کی نسلیں پروان چڑھ سکیں۔ کائی قبیلے کے سردار سلمان شاہ کے بیٹے ارطغرل غازی نے اسلام کی سر بلندی کی خاطر اپنے جان و مال اور عزیز و اقارب کو خطرے میں ڈال کر اپنے جنگجوؤں کے ساتھ مختلف ادوار میں صلیبوں، منگولوں اور سلجوق سلطنت میں موجود غداروں اور دیگر اسلام دشمن عناصر کو شکست دی۔“

یہ ایڈیٹوریل نوٹ خود ایک پاپولسٹ سٹیٹمنٹ ہے جس کا جائزہ رائٹ ونگ پاپولسٹ سیاسی پارٹی کے خواص کا اطلاق کرتے ہوئے لیا جا سکتا ہے۔ اس سٹیٹمنٹ میں جن اہم عناصر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جن کے گردیہ ڈرامہ گھومتا ہے ان میں: کرشماتی شخصیت، بیرونی خطرات، اپنی صفوں میں چھپے ہوئے غدار، سکہ بند قومی لیڈر شپ شامل ہیں۔

جیسا کہ رائٹ ونگ پاپولسٹ پارٹی کے خواص میں سامنے آیا کہ پاپولسٹ پارٹی کرشماتی شخصیت پہ تکیہ کرتی ہے۔ یہ ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی کے گرد گھومتا ہے جسے ایک کرشماتی شخصیت دکھایا گیا ہے۔ اس کردار کی سیاسی و تاریخی داستانوی تشکیل نے اس شخصیت کو ملک میں پائے جانے والے پاپولسٹ لیڈر کی کرشماتی شخصیت کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے۔ بانی پاکستان سے لیکر عمران خان تک پاکستانی معاشرہ کرشماتی شخصیت کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہاں سیاسی کلچر کا عدم فروغ اور طبقاتی نظام ہے۔ طبقات میں بٹی عوام کو ایک ایسے مسیحا کا انتظار ہے جو ان کی مشکلات اور مسائل کو حل کر دے۔ اب قوم کی ذہنی آبیاری یہ کی گئی ہے کہ پاپولسٹ لیڈر عمران خان انکے تمام مسائل کو حل کر دے گا اور اسی پر اشرافیہ اسے بر سر اقتدار لیکر آئی ہے۔

ڈرامہ سیریل کا دوسرا اہم ترین مسئلہ بیرونی خطرات ہیں۔ ڈرامے میں یہ خطرات منگولوں اور صلیبوں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ یہ خطرہ بھی ہمیں زیادہ تر کائی قبیلے کے گرد ہی بناہوا نظر آتا ہے۔ ارطغرل غازی ہی بار بار اپنے قبیلے اور دیگر ترک قبائل کو بیرونی خطرے سے ڈراتا رہتا ہے اور ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیتا ہے جس کے تحت وہ دیگر قبائل کو جنگ کے لیے متحد کر سکے۔

پاکستان میں اشرافیہ تقسیم کے وقت سے لیکر اب تک ملک کے لیے بیرونی خطرات کا ایک وسیع تر بیانیہ بن چکی ہے۔ یہ خطرات بھارت، سوویت یونین، اسرائیل اور (اگر حالات خراب ہوں تو) امریکہ کی شکل میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ چند سالوں میں بی جے پی کی حکومت کے بعد بھارت کو ایک ایسے خطرے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو منگولوں جتنا سفاک اور وحشی ہے۔

جن مشکلات اور مسائل کا بیانیہ یہاں اشرافیہ نے بنایا ہے ان میں سب سے نمایاں اور بڑا مسئلہ بیرونی حملہ آور کا خطرہ ہے۔ یہ خطرہ یہاں ہمیشہ بھارت کو بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ جیسے ارطغرل منگولوں کے خلاف ایک ڈھال ہے ایسے ہی عمران خان کو مودی کے خلاف ایک استعارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مودی کا یار کہہ کر پیش کیا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کو بھی سکیورٹی رسک قرار دیا گیا تھا۔

اپنی صفوں میں چھپے ہوئے غداروں کی تلاش ڈرامہ سیریل کا مرکزی نکتہ ہے۔ ڈرامے کی ہر قسط اور ہر سیزن میں غدار تراشے جاتے ہیں۔ پھر ان غداروں کا قلع قمع کر کے ریاست کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ غدار تراشی کا جو کھیل ڈرامے میں جاری ہے وہ پاکستان میں گذشتہ ستر سالوں سے ہو رہا ہے۔ کبھی غدار روس کے ایجنٹ تھے پھر سوویت یونین ختم ہو گیا تو روسی ایجنٹ بھی پاکستان میں ناپید ہو گئے لیکن بھارتی اور امریکی ایجنٹ کا خطرہ ابھی تک موجود ہے۔ منتخب ممبران قومی اسمبلی میں سے غدار تلاش کیے جاتے ہیں اور ان کے خلاف غداری کے پرچے کٹوائے جاتے ہیں۔

برسراقتدار پاپولسٹ قیادت اپنے آپ کو سکہ بند قومی لیڈر شپ کے طور پر پیش کرتی ہے بالکل ڈرامہ سیریل کی طرح جس میں ارطغرل اور اس کی کابینہ کے اراکین کو سکہ بند قومی لیڈر شپ کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ارطغرل غازی کو روحانی طور پر ابن عربی سے فیض حاصل ہے تو ہمارے وزیراعظم کو بابا فرید کی قبر سے روحانی روشنی حاصل ہوتی ہے۔ جو پاپولسٹ لیڈر شپ کی اہم کوالٹی کے طور پہ لی جاتی ہے۔

2018ء سے اب تک پاکستان کا پاپولسٹ سیاسی قومی بیاینہ کرشماتی شخصیت، بیرونی جارحیت، صفوں میں چھپے غداروں، سکہ بند قومی لیڈر شپ، اسلام کی سر بلندی اور ریاست مدینہ کے بیانئے کے گرد گھوم رہا ہے۔ مقتدرہ قوتوں نے یہ قومی بیانیہ شب و روز ٹی وی اور سوشل میڈیا کے استعمال سے تشکیل دیا ہے۔ چنانچہ اس سیاسی بیانئے کی جھلک ارطغرل غازی میں پیش کئے جانے والے بیانئے میں نظر آتی ہے۔ ناظرین ڈرامہ سیریل میں تشکیل دی جانے والے حقیقت کو موجودہ دور کی سوسائٹی کے سراب کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جب پاپولسٹ بیانئے کا اثر ختم ہو گا تو یہ ڈرامہ سیریل بھی ماضی کا ایک قصہ بن جائے گا لیکن تب تک یہ نفسیاتی طور پر جو نقصان برپا کرے گا اس کا خمیازہ آنے والی پوری ایک نسل بھگتے گی جیسے ضیا دور کے جہادی ٹی وی ڈراموں اور فلموں کا خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے۔

Amir Raza
+ posts

.عامر رضا ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر ہیں۔ مارکس سے خائف لوگ اور سیاست سنیما سماج کے مصنف ہیں.