فاروق طارق
شمالی وزیرستان واقعے پر حکومت کا موقف روز بروز غلط ثابت ہوتا جا رہا ہے۔ کل تک جن پر فوجی چوکی پر حملہ کرنے کا الزام لگایا جا رہا تھا، جنہیں افغان ایجنٹ قرار دیا جا رہا تھا، اب انہیں شہید قرار دے کر خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ نے اُن کے خاندانوں کے لئے فی کس 25 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ زخمیوں کو فی کس 10 لاکھ روپے دئیے جائیں گے۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی 3 سے کئی گنا زیادہ تسلیم کر لی گئی ہے۔
اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر حکومت کا زبردست مذاق اڑایا جا رہا ہے اور طنز کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ یہ اعلان حکومت کی جانب سے اعترافِ جرم کے مترادف ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس واقعہ سے کیسے نپٹا جائے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ حکومت‘ پشتون تحفظ موومنٹ بارے کوئی واضح موقف اور حکمت عملی اختیار کرنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ کبھی ان سے مذاکرات کیے جاتے ہیں، انہیں اپنے لوگ اور متاثرین قرار دیا جاتا ہے، پھر کبھی غداری کے الزامات لگائے جاتے ہیں، دھمکیاں دی جاتی ہیں، کبھی جزوی کریک ڈاؤن ہوتا ہے، کبھی پھر مذاکرات شروع کر دئیے جاتے ہیں۔
خرقمر کا واقعہ رونما ہوا تو یہ کہا گیا کہ فوجی چوکی پر حملہ ہوا ہے، جوابی کاروائی میں تین ”دہشت گرد“ مارے گئے ہیں۔ یہ بتایا گیا کہ علی وزیر مسلح افراد کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا اور اسے گرفتارکر لیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ محسن داوڑ فرار ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اُدھر جلوس پر فائرنگ کی ویڈیو نے یہ تو بالکل واضح کر دیا کہ مظاہرین مسلح نہ تھے‘ نہ ہی وہ حملہ آور ہوئے تھے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد نے دیکھی۔ اس ایک منٹ کی ویڈیو نے حکومت کا سارا مقدمہ ہی بگاڑ دیا۔
یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی کہ تین لوگ مارے گئے۔ واقعہ کے اگلے روز یہ کہہ دیا گیا کہ پانچ لاشیں وقوعہ سے ڈیڑھ کلو میٹر دور برآمد ہوئی ہیں۔ یہ تو آٹھ ہوئے۔ باقی پانچ کا تو سرکاری طور پر ذکر ہی نہ کیا گیا۔ پھر 13 افراد کے ناموں اور پتوں کی فہرست جب وائرل ہوئی تو بھانڈہ پھوٹا۔ اب ’شہید‘قرار دے کر انہیں صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ایک طرف تو ہاتھ سے نکلتے حالات قابو میں کرنا چاہتی ہے‘ دوسراکچھ لوگوں کو منا کے‘ خاموش کروا کے تحریک میں تفریق پیدا کرنے کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔
علی وزیر اور محسن داوڑ کو دہشت گرد قرار دینے کے لئے بھی پورے جتن کیے جاتے رہے ہیں۔ دونوں پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔ محسن داوڑ کی گرفتاری اس طرح میڈیا پر پیش کی گئی کہ شاید حکومت نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ پھر یہ بھی جلد واضح ہوگیا کہ محسن داوڑ نے پہلے ایک پیغام ریکارڈ کرایا اور اس کے بعد رضاکارانہ طور پر گرفتاری دی۔
بلاول بھٹو نے واقعے کے دوسرے روز ہی کہہ دیا تھا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ دہشت گرد نہیں ہیں۔ بعد ازاں بلاول نے جس بھرپور طریقے سے اسمبلی میں احتجاج کیا اس سے بھی وہ ایک نئی مثال رقم کر گیا۔
گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے سنیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر بھی ایک نیم سرکاری سمجھے جانے والے ٹی وی چینل بہت بے باکی سے حکومت کی مخالفت اور علی وزیر کی حمایت کرتے نظر آئے جس پر انہیں سوشل میڈیا پر خاصی پذیرائی بھی ملی۔
وفاقی وزرا ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ علی وزیر اور محسن داوڑ مجرم اور ملک دشمن ہیں‘ ان دونوں کو پاکستان میں رہنے کا حق ہی نہیں ہے۔ ان کی اسمبلی کی رکنیت منسوخ ہونی چاہئے۔لیکن حکومت کے اپنے وزیر اعلیٰ کے مذکورہ بالا اعلان نے حکومتی نمائندوں کے سارے موقف اور الزامات کی ہوا نکال دی ہے۔
ادھر علی وزیر اور انکے ساتھیوں کی رہائی کے لئے اندرون و بیرون ملک احتجاجی مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ پشاور میں پانچ روز سے دھرنا چل رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس دھرنے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ کے مختلف شہروں میں روزانہ احتجاج ہو رہے ہیں۔ یہ مظاہرے کسی کی کال پر نہیں بلکہ خودرو طور پہ ہو رہے ہیں۔
ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں پاکستانی تارکین وطن نے وہاں کی سوشلسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر اس واقعہ کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
یورپ کے مختلف شہروں میں بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یورپی تنظیم ای ایس ایس ایف (یورپین سالیڈیرٹی ودآوٹ بارڈرز) کی جانب سے علی وزیر کی رہائی کا مطالبہ کرنے والی پٹیشن پر دنیا کی سینکڑوں اہم شخصیات نے دستخط کیے ہیں اور دستخط کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان کی تقریباً تمام حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے مشترکہ طور پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں علی وزیر اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی اور ان پر قائم مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دستخط کرنے والی تنظیموں میں ویمن ایکشن فورم، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ، ویمن کولیکٹو، ویمن ایٹ ڈھابہ اور فیمینسٹ کولیکٹو شامل ہیں۔
اس سے قبل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، ایمنسٹی انٹر نیشنل، خیبر پختونخواہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر وکلا تنظیمیں علی وزیر اور ان کے ساتھیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کر چکی ہیں۔
پاکستانی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس مسئلے پر حکومت کی مخالفت کر رہی ہیں۔ حزب اختلاف محسن داوڑ اور علی وزیر کے پراڈکشن آرڈرز کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اس سارے جبر اور خون خرابے کا کوئی نتیجہ نکلا ہے تو یہی کہ پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے مرکزی رہنما بالخصوص محسن داوڑ اور علی وزیر پہلے سے زیادہ مقبول رہنما بن کر ابھرے ہیں۔