لاہور (جدوجہد رپورٹ) گزشتہ سال 2020ء میں کورونا وباء کے باوجود اسلامی بینکوں میں غیر معمولی نمو دیکھنے میں آئی ہے۔ ایکسپریس ٹربیون کے مطابق اسلامی بینکوں کے اثاثوں میں اس غیر معمولی اضافے کے پیچھے حکومت کی طرف سے لئے گئے 700ارب سے زائد کے قرضے شامل ہیں۔ حکومت نے یہ قرضے بجٹ خسارہ کم کرنے اور توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے اسلامی بینکوں سے حاصل کئے تھے۔ اسلامی بینکاری کی صنعت کے مجموعی طور پر اثاثوں اور ذخائر میں سال 2020ء کے دوران بالترتیب 30اور 28فیصد کی زبردست نمو ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ”2012ء کے بعد اسلامی بینکاری کے اثاثوں میں یہ سب سے زیادہ اضافہ ہے اور 2015ء کے بعد سب سے جمع ہونیوالی رقم ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اسلامی بینکاری کی صنعت کے اثاثوں اور ذخائر دونوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔“
وزارت خزانہ نے گزشتہ مالی سال کے دوران بجٹ خسارے کی مالی معاونت کیلئے 500ارب روپے کا قرض لیا۔ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کو کم کرنے کیلئے مزید 200ارب کا قرض لیا گیا۔ اسلامی بینکاری کی صنعت کے ذخائر ایک سال میں 28فیصد اضافے کے ساتھ دسمبر2020ء میں 3.39ہزار ارب روپے ہو چکے ہیں، جبکہ سال 2019ء کے دسمبر تک یہ ذخائر 2.65 ہزارارب روپے تھے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق اسلامی بینکاری صنعت کے اثاثے ایک سال میں 30فیصد اضافے کے ساتھ دسمبر2020میں 4.27ہزار ارب روپے ہو گئے ہیں جو 2019ء کے دسمبر تک 3.28ہزار ارب روپے تھے۔
دسمبر 2020ء تک بینکنگ انڈسٹری میں اسلامی بینکاری کا مارکیٹ شیئر ایک سال میں بڑھ کر 18.3 فیصد ہو گیا ہے جبکہ دسمبر 2019ء میں یہ شیئر 16.6فیصد تھا۔
رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک نے مختلف قواعد و ضوابط کے ذریعے اسلامی بینکاری کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے 2023ء تک اسلامی بینکوں کے مارکیٹ شیئر 25فیصد کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان بھی اسلامی بینکوں کے مارکیٹ شیئر کو 30فیصد تک بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔ اس وقت یہ حصہ 2.5فیصد پر ہے۔ آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بھی حکومت کو اسلامی بینکوں سے بجٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے قرضے لینے کی تجویز دے رکھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسلامی بینکاری کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ روایتی بینکوں کے مقابلہ میں شریعت کے مطابق بینکوں سے مالی اعانت کم ہے۔