لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کے سینئر صحافی اور سابق چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ابصار عالم نامعلوم افراد کی فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہو گئے ہیں۔ ان پر فائرنگ منگل کی شام اسلام آباد میں اس وقت کی گئی جب وہ ایف الیون پارک میں واک کر رہے تھے۔
ابصار عالم کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کر دیا گیاہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے حملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جبکہ ایس ایس پی انوسٹی گیشن کی سربراہی میں پولیس کی خصوصی ٹیم بھی تشکیل دیدی گئی ہے۔ ہسپتال منتقل ہونے کے دوران گاڑی سے ابصار عالم نے ایک ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کروایا ہے جس میں انکا کہنا تھا کہ ”میں واک کر رہا تے، مجھے کسی نے گولی مار دی ہے، پیٹ میں میری پسلیوں میں گولی لگی ہے۔ میں حوصلہ نہیں ہارا اور نہ حوصلہ ہاروں گا۔ میرا پیغام ہے ان لوگوں کو جنہوں نے مجھے گولی مروائی ہے۔ میں حوصلہ چھوڑنے والا نہیں ہوں اور نہ ہی ان چیزوں سے ڈرنے والا ہوں۔“
یاد رہے کہ ابصار عالم گزشتہ 3 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ چیئرمین پیمرا کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ گزشتہ لمبے عرصے سے حکومت اور ریاست کے طاقتور حلقوں کے شدید ناقد رہے ہیں۔
ابصار عالم پر حملے کے بعد 2 روز قبل انکی جانب سے کئے جانیوالے 2 ٹویٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ابصار عالم پر تازہ حملے کی وجہ ان 2 ٹویٹس کو قرار دیا جا رہا ہے۔ 18 اپریل کو انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے پاکستانی خفیہ ادارے کے موجودہ سربراہ پر الزام عائد کیا تھا کہ 2018ء میں انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل پر لگائی گئی پابندی ہٹانے کیلئے دباؤ ڈالا تھا۔
انہوں نے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ”نومبر 2018ء میں جب میں چیئرمین پیمرا تھا، چینل 92 کو نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی، لائیو سکیورٹی آپریشن دکھانے اور سیٹلائٹ وین کی سہولت دھرنے والوں کو مہیا کرنے پر بند کر دیا گیا۔ جنرل فیض نے مجھے فون کر کے کہا کہ یا تو چینل 92 کھول دیں یا باقی سب چینل بھی بند کر دیں۔ میں نے کہا دونوں کام نہیں ہو سکتے، کچھ ہی دیر میں وفاقی حکومت نے اپنے اختیارات کے تحت تمام چینلز بند کرنے کا حکم نامہ بھیج دیا۔ کوئی پوچھے گا جنر ل فیض سے کہ کیا مفاد تھا جو آگ لگانے اور بھڑکانے والے چینل 92 کو اس وقت کھلوانا چاہتے تھے؟ سمجھ آیا چینلز اور اینکرز کیسے چلتے اور بند ہوتے ہیں۔“
واضح رہے کہ ماضی میں بھی ابصار عالم پریس کانفرنس کے ذریعے الزام عائد کر چکے ہیں کہ انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔ دوسری جانب ابصار عالم پر حملے کے بعد مختلف سماجی حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اس کی مذمت کی جا رہی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق وزیراعظم و قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔
نواز شریف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ”ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ بہت سارے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ وہ جمہوریت اور سول بالا دستی کے لیے اٹھتی ایک بہادر اور حق پر مبنی آواز ہیں۔ صحافت کا گلا گھونٹنے والے ان مجرموں کو فوری طور پر قوم کے سامنے لاکر نشان عبرت بنایا جائے۔“
مریم نواز نے اپنے پیغام میں لکھا کہ’’اختلاف کرنے والی آواز کو دبانا اس ملک کو برسوں سے لاحق کینسر ہے۔ابصار عالم اس ظلم اور بربریت کا شکار ہونے والے شخص ہیں۔“
اے این پی کی رہنما بشریٰ گوہر نے کہا کہ ”پاکستان صحافیوں کیلئے محفوظ ملک نہیں ہے۔“
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر صحافیوں، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور کارکنان کی کثیر تعداد نے ابصار عالم پر ہونیوالے قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے اور اس طرح کے اقدامات کو آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے اور مخالف آوازوں کو قتل کرنے کے فسطائی اقدامات قرار دیا ہے۔