خبریں/تبصرے

لبریشن فرنٹ نے انتخابات کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دیکر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا

راولاکوٹ (نامہ نگار) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو اقوام متحدہ کی قراردادوں، چارٹر، بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے انتخابات سمیت میرٹ کے قتل عام، آزادی صحافت پرپابندیوں، ایکٹ 74ء، تقسیم جموں کشمیرکے خلاف اور تنخواہوں میں اضافے، عوام کی نمائندہ، جمہوری اور آئین سازاسمبلی کے انتخابات کے انعقاد سمیت دیگر مطالبات کے گرد احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔

یہ احتجاجی تحریک 15 جون کو راولاکوٹ میں ایک بڑے احتجاجی جلسے کے انعقاد سے شروع ہو گی، جس کے بعدضلعی اور ڈویژنل ہیڈکوارٹرز پر احتجاجی مظاہرے اور عوامی رابطہ مہم چلائی جائیگی جبکہ 14 جولائی کو راولاکوٹ سے مظفرآباد اسمبلی سیکرٹریٹ کی طرف لانگ مارچ کا انعقاد کیا جائے گا۔

یہ اعلانات جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ نے راولاکوٹ میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کئے۔ اس موقع پر انکے ہمراہ سینئر وائس چیئرمین راجہ مظہر اقبال ایڈووکیٹ، سردار عبدالحمید، شاہ زیب حبیب، نذر کلیم، انوش بٹ اور دیگر بھی موجود تھے۔

سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ ’بیداری عوام مہم اور احتجاجی تحریک پرامن ہو گی۔ کسی بھی طرح کے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کرنے کی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہو گی۔

انکا کہنا تھا کہ ”یہ خطہ متنازعہ ہے، اس کے لوگوں نے مستقبل کا فیصلہ ابھی کرنا ہے لیکن ہر دو ممالک جموں کشمیر میں اپنی شرائط پرانتخابات منعقد کروا رہے ہیں۔ آئین پاکستان اور آئین ہند کے تابع منعقد ہونے والے انتخابات کو ہم تسلیم نہیں کرتے۔“

انکا کہنا تھا کہ ”دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کی قراردادوں، جنہیں ہم تسلیم نہیں کرتے، پر دستخط کر رکھے ہیں اور یہ انتخابات ان قراردادوں کے سراسر منافی ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہیں، انسانی حقوق سے متصادم ہیں، یہ جمہوری نہیں ہیں، یہ سلیکٹو ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان انتخابات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ ”ٹکٹوں کی بندر بانٹ بنی گالہ، رائیونڈ اور بلاول ہاؤس میں مقتدر اداروں کی منظوری کے بعد کی جاتی ہے۔ ماضی میں بریگیڈیئر غضنفر نے کشمیریوں کی نمائندہ جماعت کے امیدواران کو گجرات میں لائنوں میں کھڑا کر کے ٹکٹ تقسیم کئے تھے، آج بھی اس خطے کی نمائندگی کے دعویدار ٹکٹوں کے حصول کیلئے لائنوں میں کھڑے ہیں۔“

سردار صغیر نے کہا کہ ”پینٹاگون میں جموں کشمیر کی مستقل تقسیم کا منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے، تقسیم کا یہ عمل آخری مراحل میں ہے، جس میں کچھ رکاوٹیں ہیں اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے انتخابات وقتی طور پر ملتوی کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ایسے لوگوں کو عوامی نمائندوں کے طور پر منتخب کروایا جائے جو اس تقسیم کے منصوبے پر انگوٹھا لگا سکیں۔ جموں کشمیر کے عوام اس منصوبہ کا حصہ نہ بنیں، سیاسی، صحافتی اور سفارتی محاذوں پر اس منصوبہ کے خلاف ایک منظم مہم شروع کی جائے۔“

انہو ں نے حالیہ ایک حکومتی بل کے تحت 5 سال اور اس سے زائد عرصہ سے ایڈہاک ملازمین کو مستقل کئے جانے کے عمل کو مسترد کرتے ہوئے اس عمل کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس بل کی منظوری کے بعد سیکڑوں لوگوں کو پچھلی تاریخوں میں ایڈہاک تقرر کیا گیا تاکہ وہ مستقل ہو سکیں، سیاسی مفادات کے تحت میرٹ کا قتل عام کیا گیا۔ عدلیہ کے فیصلے موجود ہیں کہ ہنگامی حالات کے بغیر ایڈہاک تقرری نہیں کی جا سکتی اور ہنگامی حالات میں بھی محض 6 ماہ کیلئے یہ تقرری کی جا سکتی ہے جس میں توسیع نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے اس بل کو نوجوانوں اوربالخصوص پڑھی لکھی خواتین کا معاشی قتل قرار دیا۔

پریس کانفرنس کے دوران لبریشن فرنٹ کی قیادت نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں افواج پاکستان کی تربیتی مشقوں کیلئے موجودگی پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فی الفور واپسی کا مطالبہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ آبادیوں میں افواج مورچہ زن اور خیمہ زن ہیں، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے۔ فوری طور پر افواج کو آبادیوں سے باہر نکالا نہ گیا تو اس کے خلاف بھی احتجاج کیا جائے گا۔

پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں پر حالیہ عرصہ میں ہونے والے حملوں اور دھمکیوں کی مذمت کی گئی۔ حامد میر اور منیزے جہانگیر کی تقاریر کو من و عن حقائق پر مبنی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ لبریشن فرنٹ صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا۔ آزادی صحافی کی جدوجہد میں صحافیوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے کا اعلان کیا گیا۔

احتجاجی تحریک کے دوران مہنگائی کے خلاف عوام کو منظم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا اور آئندہ بجٹ میں گریڈ ایک تا 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں یکمشت ایک تولہ سونے کے برابر اضافہ کرنے، لینٹ افسران، بیوروکریٹوں اور اعلیٰ عدلیہ کی تنخواہوں اور مراعات میں کٹوتی کرنے کامطالبہ بھی کیا گیا اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں غیر ریاستی افراد کو شناختی کارڈ اور ڈومیسائل جاری کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے فوری طو ر پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی اور غیر قانونی دستاویزات منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts