اداریہ جدوجہد
ھر شب ستارہ ای بہ زمین میکشند و باز
این آسمان غمزدہ غرق ِ ستارہ ھاست
(ہر رات ایک ستارے کو نوچ کر زمین پر پھینک دیتے ہیں لیکن یہ غمزدہ آسمان ستاروں سے بھراہوا ہے)
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی تدفین آج 23 جون کو انکے آبائی علاقے مسلم باغ ضلع قلعہ سیف اللہ میں کی جائیگی۔
وہ پیر کے روز کراچی کے ایک ہسپتال میں کچھ روز زیر علاج رہنے کے بعد وفات پا گئے تھے۔ انہیں 17 جون کو بے ہوشی کی حالت میں کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا گیا تھا جہاں انکے دماغ کا آپریشن کیا گیا اور بعد ازاں انہیں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر علاج کیلئے بذریعہ ایئر ایمبولینس کراچی منتقل کیا گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق انکی موت برین ہیمبرج کی وجہ سے ہوئی۔ برین ہیمبرج کے بعدگرنے سے انہیں سر پر چوٹ آئی تھی۔ تاہم لواحقین اور قریبی رشتہ داروں نے الزام عائد کیا ہے کہ انکی موت طبعی نہیں ہے۔ انکی موت کی وجوہات بارے تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
عثمان کاکڑ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے مسلم باغ میں سنہ 1961ء کو پیدا ہوئے۔ میٹرک کوئٹہ میں اسلامیہ اسکول سے کرنے کے بعد انہوں نے بہاولپور سے انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ سائنس کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے ایم اے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے لا کالج کوئٹہ سے ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی۔
زمانہ طالبعلمی سے ہی وہ پشتون قوم پرست طالب علم تنظیم پشتونخوا ملی اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ ہوئے۔ وہ تنظیم کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ سنہ 1987ء میں پشاور میں ایک بڑی کانفرنس میں تنظیم کے سیکرٹری اؤل یعنی سربراہ منتخب ہوئے۔
عثمان کاکڑ سابق آمر ضیا الحق کے دور میں پابندیوں کے باعث ترقی پسند طلبہ کے ملک گیر اتحاد ’پاکستان پروگریسو الائنس‘کے پلیٹ فارم سے بھی متحرک رہے۔
1986ء میں طلبہ سیاست سے فراغت کے بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ پارٹی میں فعال کردار کی وجہ سے محمد عثمان کاکڑ کو پارٹی کا صوبائی صدر منتخب کیا گیا اور گذشتہ طویل عرصے سے پارٹی کے صوبائی صدر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ پارٹی کا صوبائی صدر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ وہ 2015ء میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر بلوچستان سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
عثمان کاکڑ پاکستان بھر میں محکوم قومیتوں کی ایک توانا آواز کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ بطور سینیٹر انہوں نے سابق فاٹا کے علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف سینیٹ میں بھرپور آواز اٹھائی، بلوچستان سمیت ملک بھر میں جبری گمشدگیوں کے خلاف بھی وہ مسلسل آواز اٹھاتے رہے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی بالادستی، جمہوری اداروں کی فعالی اور غیر جمہوری قوتوں کی اقتدار اور سیاست میں مداخلت کے خلاف بھی وہ ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے۔ پاکستان بھرمیں محکوم و مظلوم قومیتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے جموں کشمیر کی آزادی کیلئے بھی سینیٹ کے اندر اور باہر بھرپور آواز بلند کی اور کشمیریوں کی آزادی کی ہمیشہ وکالت کی۔
عثمان کاکڑ نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے اپنی جان کو لاحق خطرات کی طرف متعدد مرتبہ اشارہ کیا۔ انکی سینیٹ میں ایک تقریر کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں انکا کہنا تھا کہ ”ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ہم جمہوریت اور اپنے نظریات سے دستبردار ہو جائیں، قوموں کی بات کرنا چھوڑ دیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرنا چھوڑ دیں اور جو غیر جمہوری قوتیں ہیں ان پر تنقید کرنا بند کر دیں۔ مجھے یہ اشارے اور پیغامات مل رہے ہیں لیکن میں یہ نہیں کر سکتا ہوں۔ مجھے کچھ ہوا، میرے بچوں کو کچھ ہوا اور میرے خاندان کو کچھ ہوا تو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ مجھے میرے نظریات، جمہوریت، میری قوم اور پارلیمنٹ کی بالادستی زیادہ عزیز ہے لیکن میں یہ ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ مجھے یا میرے خاندان کو اگر کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار 2 انٹیلی جنس ادارے ہوں گے، میں یہ اس لئے ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں تاکہ یہ گم کھاتے میں نہ جائے۔“
عثمان کاکڑ کے قریبی رشتہ داروں اور اہل خانہ کی طرف سے بھی یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ گھر کے ایک کمرے میں اکیلے تھے جس وقت ان پر کچھ لوگوں نے حملہ کیا۔ پارٹی کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیہ میں بھی ان کیلئے ’شہید‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
عثمان کاکڑ کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال بلوچستان کی سیاسی صورتحال اور ریاست پر عوامی اعتماد کی کیفیت کو بھی واضح کرتی ہے۔ سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار علاقوں میں ریاست اور اداروں پر عوام کا اعتماد مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی واقعے کی تحقیقات یا مکمل رپورٹ آنے سے قبل ہی ایک رائے عامہ قائم ہو جاتی ہے، جس کی بنیادی وجہ ماضی کی مسلسل تجربات کے باعث بننے والی ایک عمومی سوچ ہے۔
عثمان کاکڑ کی موت نے بھی ان تمام خدشات کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔ تاہم عثمان کاکڑ کی طبعی موت کی ذمہ داری سے بھی کسی طور ریاست کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں صحت کی سہولیات کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے جس کے باعث عثمان کاکڑ کو کراچی منتقل کرنا پڑا اور اس عمل میں بہت زیادہ وقت لگنے کے باعث وہ جانبر نہ ہو سکے۔
عثمان کاکڑ سمیت اس ملک کے محنت کشوں، نوجوانوں اور محکوم قومیتوں کی نجات اور حقیقی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے ہزاروں سیاسی کارکنوں کی طبعی یا سیاسی موت کا انتقام پھر اس نظام کے خلاف ان کی جلائی ہوئی شمع کو جلائے رکھنے اور جدوجہد کو تیز کرتے ہوئے ان کے مشن کی تکمیل، اس خطے میں ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھنے پر ہی منحصرہے جہاں کوئی کسی کا کسی نوعیت کا استحصال نہ کر سکے۔