لاہور (جدوجہد رپورٹ) ترکمانستان کی سرحد کے قریب افغان طالبان کی جانب سے ہتھیار ڈالنے والے 22 افغان کمانڈوز کی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں۔
’سی این این‘ کے مطابق یہ ہلاکتیں 16 جون کو افغانستان کو ترکمانستان سے ملانے والے صوبہ فاریاب کے دولت آباد نامی قصبے میں ہوئی ہیں، یہ علاقہ ترکمانستان کی سرحد سے ملحق ہے۔ ہلاک شدگان افغان سپیشل فورسز کے ایک یونٹ کے رکن تھے جبکہ انہیں قتل کرنے والے افغان طالبان تھے۔
’سی این این‘ نے واقعے کی متعدد ویڈیز جاری کرتے ہوئے انکی تصدیق اور گواہوں سے بات چیت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم افغان طالبان نے اس خبر کو ایک پروپیگنڈہ قرار دیا ہے۔
ویڈیوز میں افغان کمانڈوز کی لاشیں پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اس قصبے میں شدید لڑائی کے بعد کمانڈوز کا طالبان نے گھیر لیا تھا۔
دوسری جانب دولت آباد میں لڑائی کے 3 دن بعد طالبان نے ایک ویڈیو شائع کی جس میں فوجی ٹرکوں اور اسلحہ کو ضبط کرنے کے منظر دکھائے گئے۔ ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ سی آئی اے کے خصوصی تربیت یافتہ کمانڈوز کو زندہ گرفتار کیا گیا ہے۔
طالبان نے بدھ کے روز ایک ٹویٹر پوسٹ میں کہا کہ یہ الزام جعلی ہے اور سی این این پرمن گھڑت ویڈیو ثبوت جاری کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مبینہ ہلاکتوں کی تردید کی ہے۔
ایک طالبان ترجمان نے لکھا کہ ”یہ جعلی رپورٹ ایک اور منظر نامے کی فوٹیج کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ 22 افغان کمانڈوز فاریاب صوبے میں آپریشن میں جھڑپوں کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔“
افغان وزارت دفاع کے ترجمان فواد امان نے کہا کہ ”سزائے موت ایک جنگی جرم ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب طالبان نے ہماری فوجیوں کو گولی مار کر ہلاک کیا ہے۔ طالبان نے کسی پر کوئی رحم نہیں کیا، فوج سے بے گناہ شہریوں تک کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ طالبان اس جرم سے انکار نہیں کر سکتے۔ ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان ہتھیار ڈالنے کے بعد فوجیوں کو قتل کر رہے ہیں۔“
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ان ہلاکتوں کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ”یہ گہری پریشان کن ویڈیو ہے اور یہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی مایوس کن صورتحال کی عکاسی کر رہا ہے۔“
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ساؤتھ ایشیا میں نمائندہ سمیرا حمیدی نے کہا کہ ”یہ شواہد بتاتے ہیں کہ طالبان کے اپنے طریقوں کو تبدیل کرنے کے مستقل دعوے جھوٹے پر پیش کئے جاتے ہیں اور ان کے دعوؤں کو پوری طرح سے مجروح کرتے ہیں کہ وہ امن عمل میں انسانی حقوق کا احترام کرینگے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”افغان حکام کو اس قابل مذمت فعل کی فوری تحقیقات کا آغاز کرنا چاہیے اور اگر وہ قصور واروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہے تو عالمی برادری اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کو لازماً اپنا قدم اٹھانا چاہیے۔“