حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں ’علما مشائخ‘ کی نشست پر طالبان دور میں افغانستان میں ایک صوبے کے اہم عہدے پر فائز رہنے والے کمانڈر کو تحریک انصاف نے ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کی مقامی تنظیم کے سیکرٹری جنرل عبدالماجد خان کے ہمراہ مظہر سعید شاہ (المعروف عبداللہ شاہ مظہر) نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔
عبداللہ شاہ مظہر کے نام سے پہچانے جانے والے مظہر سعید شاہ وادی نیلم کے علاقے لوات سے تعلق رکھتے ہیں۔ لمبے عرصے سے کراچی میں مقیم ہیں اور وہاں ایک مقامی مسجد میں خطیب کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں۔ مظہر سعید شاہ ماضی میں ’افغان جہاد‘ میں شامل رہے اور ڈاکٹر نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کے ایک صوبے میں اہم عہدے پر بھی فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ کالعدم حرکۃ المجاہدین سے ’جہادی‘ سفرشروع کرنے والے مظہرسعید شاہ بعد ازاں ’مولانا مسعود اظہر‘ کی تنظیم ’کالعدم جیش محمد‘ کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔
مظہر سعید شاہ پر اشتعال انگیز تقاریر کی وجہ سے مختلف علاقوں میں پابندیاں بھی عائد کی جاتی رہی ہیں اور گزشتہ کچھ عرصہ سے نیلم میں ایک اشتعال انگیز تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ نے بھی ان کی تصاویر اور ویڈیوز کو نفرت پھیلانے والی شخصیات کے زمرے میں شامل کر رکھا ہے۔
2008ء میں برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں عسکری سرگرمیوں کے دوران مارے جانے والے نوجوان ’ریاض حسین‘ سے متعلق شائع کی جانیوالی ایک رپورٹ میں بھی مظہر سعید شاہ (عبداللہ شاہ مظہر) کا بطور رہنما ’جیش محمد‘ صوبہ سندھ ذکر کیا ہے۔
2001ء میں ’جیش محمد ‘ اور دیگر تنظیموں کو امریکہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کئے جانے کے بعد ’الفرقان‘ کے نام سے تنظیم قائم کی گئی تھی۔ بعد ازاں مظہر سعید شاہ کے مولانا مسعود اظہر کے ساتھ اختلافات ہوئے جس کے بعد انہوں نے ’تحریک غلبہ اسلام ‘ کے نام سے تنظیم قائم کر لی تھی۔
2011ء میں جمعیت علما اسلام جموں و کشمیرمیں شمولیت اختیار کرتے ہوئے مظہرسعید شاہ نے نیلم ویلی سے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لیا، تاہم وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ کچھ عرصہ قبل مولانا فضل الرحمان کے دورہ نیلم کی میزبانی بھی مظہر سعید شاہ نے ہی کی تھی۔ حالیہ انتخابات سے قبل انہوں نے مسلم کانفرنس میں شمولیت کا اعلان کیا، ٹکٹ نہ ملنے پر ’آل جموں و کشمیر جمعیت علما اسلام محمود الحسن گروپ‘ میں شمولیت اختیار کی۔ یہ تنظیم مولانا فضل الرحمان سے بغاوت کر کے قائم کی گئی ہے۔ مظہر سعید شاہ کو شمولیت کے فوری بعد جماعت کے پارلیمانی بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا، تاہم کوئی بھی امیدوار فائنل نہ ہو سکا اور مظہر سعید شاہ نے جمعیت علما اسلام (فضل الرحمان گروپ) اور پاکستان تحریک انصاف کے پرچم اپنے گاڑی پر لگا کر تحریک انصاف کے امیدوار ’گل خنداں‘ کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ گل خنداں بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار شاہ غلام قادر سے شکست کھا گئے۔
صحافی جلال الدین مغل نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پرلکھا کہ ”مظہر سعید شاہ فضل الرحمان کے کافی قریب تھے۔ مسعود اظہر کے ساتھ جیش محمد میں بھی کافی سرگرم رہے۔ طالبان کے ابتدائی دور حکومت میں افغانستان کے کسی صوبے کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ تب عبداللہ شاہ مظہر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ میں سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوتے وقت کسی پیچیدگی کی وجہ سے وزن کافی کم ہو گیا۔“
یاد رہے کہ مظہر سعید شاہ کچھ عرصہ لاپتہ بھی رہے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں مقتدر اداروں نے اپنی تحویل میں لے رکھا تھا، کافی عرصہ تحویل میں رکھنے کے بعد جب انہیں رہائی ملی تو جسمانی طور پر کافی کمزور ہو گئے تھے۔ 2 سال قبل کی انکی تقاریر کی تصاویر اور موجودہ تصاویر کے مطابق وہ 2 سال پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ کمزور دکھائی دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ مظہر سعید شاہ کے بڑے بھائی مفتی ابولبابہ شاہ منظور (اصلی نام طاہر شاہ) کراچی کے ’جامعۃ الرشید‘میں معلم ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان سے اشاعت کا آغاز کرنے والے ’جہادی‘ہفت روزہ ’ضرب مومن‘ سمیت دیگر کے مستقل لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مفتی ابولبابہ شاہ منصور نے ’دجال‘ سمیت متعدد کتب بھی تحریر کر رکھی ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ایک ایسے شخص کو علما مشائخ کیلئے مخصوص نشست پر امیدوار نامزد کیا جانا تحریک انصاف اور عمران خان کی سوچ کی عکاسی کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی عمران خان پر طالبان کا حمایتی ہونے کے الزامات لگتے آئے ہیں اور انہیں ’طالبان خان‘ کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان کی پیش قدمی کے بعد وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر سرکاری حکام کی جانب سے دیئے گئے بیانات اور سرکاری نیوز ایجنسی کی جانب سے ریلیز کی گئی خبروں سے بھی عمران حکومت کے طالبان کی جانب نرم رویے کی عکاسی ہو رہی ہے۔
حکمران اس خطے پر جس عفریت کو مسلط کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ یہ آگ اگر بھڑک اٹھی تو تباہی اور بربادی کا شکار ماضی کی طرح اس خطے کے مظلوم و محکوم محنت کش عوام ہی ہونگے۔ حکمران طبقات نے وحشت، بربریت، تباہی، بربادی، دہشت گردی، قدرتی آفات سمیت ہر بحران سے مفادات ہی حاصل کئے ہیں۔ نقصان اگر ہوا ہے تو صرف محنت کش طبقے کا ہوا ہے۔
ماضی میں حکمران طبقات جس طرح وحشت و بربریت کو معاشرے پر مسلط کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی بغاوت کو ٹالتے آئے ہیں اور اپنے اقتدار اور لوٹ مار کیلئے راستے بناتے آئے ہیں، ضروری نہیں اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو۔ بحران در بحران نے اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو بہت گھائل کیا ہے، مایوس کیا ہے، بدظن کیا ہے۔ جس طرح رات کے تاریک ترین پہر سے روشنی کی پو پھوٹتی ہے، اسی طرح مایوسی کی گہرائیوں سے امید اور بغاوت کی کرنیں پھوٹتے وقت نہیں لگے گا۔ جس عفریت سے اب کی بار محنت کش طبقے کو ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے شاید اس کا اب وقت گزر چکا ہے۔