خبریں/تبصرے

کشمیر میں کرکٹ بھی طالبان کے حوالے: ٹیم اونر جہادی، مرکزی سپانسر ای سی ایل پر

حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے دارالحکومت میں منعقدہ 11 روزہ ٹی ٹونٹی کشمیر پریمیئر لیگ (کے پی ایل) پاک بھارت کرکٹ بورڈز تنازعہ سمیت متعدد دیگر تنازعات کا شکار ہو چکی ہے۔

کرکٹ لیگ کو پاکستان اور اسکے زیر انتظام علاقوں میں کاروبار کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں، بینکوں اور سیلولر کمپنیوں نے سپانسر شپ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ لیگ کے مرکزی سپانسر ایس آر جی (سیف الرحمان گروپ) نیب سے 11 اگست تک کی ضمانت پر رہا ہیں، انکے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد ہے جبکہ راولاکوٹ کی ٹیم کے مالک ولی جان آفریدی سابق فاٹا کے علاقے میں 2 سال قبل تک پہلے ’گڈ‘(اچھے) اور بعد ازاں ’بیڈ‘(برے) طالبان کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔

کرکٹ لیگ کا انعقاد کروانے والی کمپنی ’کٹنگ ایج گروپ‘ کے مالکان اور پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ کروائی گئی کے پی ایل کے مالکان اور ذمہ داران کے بیک گراؤنڈ پر بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر ’جدوجہد‘ کو بتایا کہ متنازعہ علاقے میں منعقد ہونے اور بھارت کی جانب سے اعتراضات کے باعث ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سپانسر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ اس لیگ کے انعقاد میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت اور حکومت پاکستان کا کوئی خاص کردار نہیں ہے۔ محکمہ سپورٹس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا ہے جس کے تحت حکومت اور انتظامیہ سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

لیگ کے انعقاد کیلئے ’کے پی ایل‘ اور سیکرٹری محکمہ سپورٹس (بطور نمائندہ صدر ریاست) کے مابین ایک معاہدہ ہوا ہے، 6 صفحات پر مشتمل اس معاہدہ میں یہ طے کیا گیا ہے کہ لیگ کے انعقاد کا مقصد اس خطے کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے لے جانا اور نئے ٹیلنٹ کو مواقع فراہم کرنا ہے۔ لیگ کے انعقاد کیلئے مقامی حکومت 10 لاکھ روپے سالانہ رقم لے گی جو 3 سال کے بعد 10 فیصد زائد ہو جائیگی، سالانہ زیادہ سے زیادہ 90 ایام تک لیگ انتظامیہ کھیل کے میدان استعمال کر سکے گی۔ لیگ انتظامیہ کو مظفرآباد اور باغ کے کرکٹ اسٹیڈیم میں فلڈ لائٹس لگوانے کے علاوہ ضروری مرمت اور بین الاقوامی معیار کے ٹوائلٹ اور ڈریسنگ روم بنوانے ہونگے۔ کم از کم 2 کشمیری باشندوں کو ہر ٹیم میں کھیلنے کا موقع فراہم کرنا ہو گا اور اس کا معاوضہ کم از کم 2 لاکھ روپے ادا کیا جائیگا۔

کشمیر پریمیئر لیگ ایک ایونٹ مینجمنٹ گروپ ’کٹنگ ایج گروپ‘ کے زیر اہتمام منعقد کی جا رہی ہے۔ ماضی میں یہ گروپ اس علاقے میں پیراگلائیڈنگ کا ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد کروانے کی کوشش کر چکا ہے تاہم وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے۔ اس وقت محکمہ سپورٹس کے ایک افسر نے یہ بتایا کہ وہ مقابلہ حکومت کے زیر اہتمام منعقد کروایا جا رہا تھا جس میں کچھ طاقتور ادارے رکاوٹ بنے تھے اور اسی گروپ کے ذریعے کرکٹ لیگ کروائی جا رہی ہے اور اس میں حکومت اورمحکمہ جات کاکوئی کردار نہیں ہے۔

لیگ کا مرکزی سپانسر ’ایس آر گروپ‘ ایک جعلی ادارہ ہے، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں یہ ادارہ رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے متعلق کوئی معلومات کہیں پر مہیا کی گئی ہیں۔ تاہم ’ایس آر گروپ‘ کی ویب سائٹ کھولنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ چند ماہ قبل فراڈ، دھوکہ دہی اور جعل سازی کے ذریعے ساڑھے 4لاکھ لوگوں سے 200 ارب سے زائد کی رقوم ہڑپ کرنے والے ’بی فور یو گلوبل‘ پر پابندی کے بعد اسی کمپنی کے مالک کے نام پر یہ گروپ بنایا گیا ہے۔

بی فور یو گلوبل پر ایس ای سی پی نے رواں سال اپریل میں 4 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے، بی فور یو گلوبل کی 18 کمپنیاں بند کر دی گئی ہیں اور اس گروپ کے 25 ڈائریکٹرز پر جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی کمپنی رجسٹرڈ کروانے کیلئے نااہل قرار دے رکھا ہے۔

بی فور یو گلوبل کے مالک سیف الرحمان خان نیازی اس وقت بھی نیب سے ضمانت پر رہا ہیں اور آئندہ تاریخ سماعت 11 اگست مقرر ہے جبکہ نیب ہی کی درخواست پر انکا اور انکے بیٹے کا نام حکومت نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال رکھا ہے۔ اسطرح ان کے ملک چھوڑنے پر بھی پابندی عائد ہے تاہم وہ ایک انتہائی حساس ادارے میں منعقد ہونے والی کرکٹ لیگ کے مرکزی سپانسر کی حیثیت سے مظفرآباد میں موجود ہیں۔

کشمیر پریمیئر لیگ کو ’پراکسی لیگ‘ کے طور پر استعمال کئے جانے کے علاوہ کالے دھن کو سفید کرنے اور ماضی میں دہشت گردی اور پراکسی وار کیلئے استعمال ہونے والے عناصر کو مین سٹریم میں لانے کیلئے استعمال کئے جانے کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔

لیگ میں کھیلنے والی 6 ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے مالک پاک افغان سرحدی علاقے زخاخیل سے تعلق رکھنے والے جان ولی شاہین بھی ہیں جو پہلے ریاست کے مسلح گروہ کے سربراہی کرتے رہے، بعد ازاں ریاست مخالف مسلح گروہوں میں شریک رہے، جنہیں عموماً سابق فاٹا کے علاقوں میں گڈ اور بیڈ طالبان کے نام دیئے جاتے ہیں۔ متعدد مرتبہ جان ولی شاہین کو گرفتار بھی کیا گیا، لاپتہ بھی کیا گیا اور ایک ایسے علاقے میں وہ سرگرم رہے جہاں سے ماہانہ 30 سے 40 ارب روپے کی سمگلنگ ہوتی ہے۔

جنوبی وزیرستان سے ذرائع نے بتایا ہے کہ جان ولی شاہین پاک افغان سرحد کے قریبی علاقے زخاخیل کے رہائشی ہیں، جہاں سے افغانستان کے طبائی بازار سے سمگلنگ کا ساز و سامان اور نان کسٹم مشینری لانے کا ایک اہم راستہ گزرتا ہے۔ مذکورہ علاقہ لشکر اسلام نامی ایک دہشت گرد گروہ نے بند کر رکھا تھا، جسے کھلوانے کیلئے حکومت اور اداروں نے زخاخیل قبائل سے ہی امن لشکر قائم کروائے، ابتدا میں یہ ایک لشکر تھا جسے ’امر بالمعروف‘ کے نام سے جانا جاتا تھا بعد ازاں اختلافات کے باعث ’توحید اسلام‘ کے نام سے ایک اور لشکر بھی قائم ہوا۔

حکومت نے زخا خیل قبائل کو مسلح کیا اور اس راستے کے دفاع اور’لشکر اسلام‘کے خلاف لڑائی میں جھونک دیا۔ جان ولی شاہین اور حاجی منصف نامی شخص ان دونوں لشکروں کی قیادت میں موجود رہے۔ الزام یہ ہے کہ ’لشکر اسلام‘کو شکست کے بعد جان ولی شاہین اور ان کے ساتھیوں نے زخاخیل قبائل سے تعلق رکھنے والے لشکر اسلام کے عسکریت پسندوں کے گھروں کو مسمار کیا اور انکا قتل عام کرنے کے علاوہ باقیوں کا افغانستان کے علاقے نازیان میں دھکیل دیا۔

’لشکر اسلام‘ کو شکست ہونے کے بعد زخا خیل قبائل کو غیر مسلح کرنا حکومت کا اہم ٹاسک تھا جسے پورا کرنے کیلئے اقدامات شروع ہوئے تو حاجی منصف اور جان ولی شاہین کے زیر قیادت گروہ ریاست کے باغی ہو گئے۔ حکومت نے پشاور کی کارخانہ مارکیٹ میں زخا خیل قبائل کے عسکریت پسندوں کو کاروبار بھی شروع کروا کر دیئے۔ تاہم حاجی منصف اور جان ولی شاہین ریاست کی گرفت سے باہر ہو گئے، 2018ء کے انتخابات میں حاجی منصف نے انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ بعد ازاں حاجی منصف اور جان ولی شاہین کو لاپتہ کیا گیا اور مبینہ طور پر ’سافٹ ویئر‘ اپ ڈیٹ کرنے کے بعد دوبارہ مین سٹریم میں لانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ جان ولی شاہین کو ’کے پی ایل‘ میں راولاکوٹ کی ٹیم کا مالک بنا کر لایا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ریاستی ایما پر عسکریت پسندی کا راستہ اپنانے والے گروہوں کو مین سٹریم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ایک سابق ’جہادی کمانڈر‘ کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں مخصوص نشست پر ممبر اسمبلی بنوایا گیا ہے۔ جماعۃ الدعوۃ، سپاہ صحابہ سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کے کارندوں پر مشتمل سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروا کر انہیں انتخابات میں حصہ دلوایا گیا ہے۔ جان ولی شاہین سمیت دیگر عسکریت پسندوں کو بھی مین اسٹریم میں لانے کیلئے کے پی ایل کو استعمال کئے جانے کے خدشات بھی موجود ہیں۔

ادھر ’راولاکوٹ ہاکس‘ کے نام سے کے پی ایل میں شامل ٹیم کے کپتان اور قومی ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے جان ولی سے متعلق تمام تر معلومات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تمام تر باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کشمیر ریجن کے عہدیدار وحید اسلم نے ’جدوجہد‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے مختلف اضلاع سے کے پی ایل کی جانب سے کوآرڈی نیٹر مقرر کئے گئے ہیں۔ تاہم اس لیگ سے ٹیلنٹ کو کس طر ح سے نکھارا جائے گا، یہ بات ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ہر ٹیم میں 2 کشمیری کھلاڑیوں کو کھلانے سے متعلق کہا تو گیا ہے لیکن ابھی تک کھیلتے ہوئے کوئی نہیں دیکھا۔ 11 روزہ لیگ کے انعقاد کیلئے محض 3 روز تک کیمپ لگائے گئے ہیں جو صرف ان ہوٹلوں کے احاطوں میں ہی لگائے گئے جن میں ٹیمیں رہائش پذیر ہیں۔ مستقبل میں اگر طویل ٹرینگ کیمپ اور اکیڈمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے تو پھر ایسا ممکن ہے کہ مقامی ٹیلنٹ کو نکھارنے میں مدد مل سکے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے صحافی’نعیم چغتائی‘ کا کہنا ہے کہ”اس لیگ پر میں صرف یہی تبصرہ کر سکتا ہوں کہ یہ کالے دھن کو سفید کرنے کا ایک منصوبہ ہے، یہ کرکٹ کسی صورت نہیں لگ رہی ہے۔“

صحافی ’ثاقب راٹھور‘ کا کہنا ہے کہ ”ہم نے اس لیگ کے انعقاد کیلئے جعل سازی میں ملوث شخص اور ایک عسکریت پسند کو ٹیم کا مالک بنائے جانے پر سوال کرنے کی کوشش کی لیکن ہمیں جواب نہیں دیا جا رہا ہے، مقامی اخبارات بھی رپورٹنگ کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس سب کیفیت میں اس لیگ کی ساکھ پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔“

کے پی ایل کے صدر عارف ملک، سی ای او چوہدری شہزاد اور ایک ذمہ دار تیمور خان سے رابطہ کرنے کی کوششوں کے باوجود رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔ کے پی ایل کی آفیشل ویب سائٹ پر دیئے گئے نمبر ’کٹنگ ایج گروپ‘ کے ’ٹول فری‘ نمبرہیں جن پر ایونٹ مینجمنٹ سے متعلق ابتدائی معلومات کمپیوٹر کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہے تاہم نمائندہ سے رابطہ نہیں کروایا جا رہا ہے۔

دوسری طرف بھارتی کرکٹ بورڈ کی جانب سے کرکٹ لیگ میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کو بھارت میں کسی بھی قسم کی کرکٹ کھیلنے اور کرکٹ سے متعلق کسی سرگرمی کیلئے بھارت جانے پر پابندی کی دھمکی دیئے جانے کے بعدمحض دو بین الاقوامی کھلاڑی ہی لیگ میں آپائے ہیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔