مندرجہ ذیل اقتباس طارق علی کی کتاب ’دی ڈئل‘ سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ فاروق سلہریا نے ’پرزے ہوئے پیماں کتنے‘ کے عنوان سے کیا۔
تقسیم کے گھاؤ وہ ہاتھ نہیں بھر سکتے تھے جنہوں نے یہ گھاؤ لگائے تھے۔ اکثریت کے کرب کا بیان شاعروں اور ناول نگاروں کی ذمہ داری بن کر رہ گیا۔ اس ضمن میں تین اہلِ قلم کا کام لا زوال ہے۔ ایک تو فیض احمد فیض (1911-84ء) تھے۔ فیض، پابلونبرودا اور ناظم حکمت پر مبنی ترقی پسند شاعروں کی تکون کو بیسویں صدی میں بے حد سراہا گیا۔ تینوں شاعر قید اور جلا وطنی کے تجربے سے گزرے۔ فیض عہد ِ جدید میں جنوبی ایشیا کے عظیم شاعروں میں سے تھے۔ مادری زبان پنجابی تھی مگر شاعری اردو میں کی۔ ’صبح آزادی‘ اگست 1947ء میں ہونے والے قتل عام کے کچھ ہی عرصہ بعد منظوم کی گئی جس میں ہر سُو پھیلے دکھ،مایوسی اور غصے کی تصویر کشی کی گئی ہے:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا،یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہئ غمِ دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں، بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت ِ نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہلِ درد کا دستور
نشاطِ وصل حلال و عذابِ ہجر حرام
جگر کی آگ، نظر کی امنگ،دل کی جلن
کسی پہ چارہ ہجراں کا کوئی اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا،کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ راہ کو خبر ہی نہیں
ابھی گرانی ء شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
سعادت حسن منٹو (1912-55ء) برصغیر میں پیدا ہونے والا اردو کا سب سے زیادہ با صلاحیت افسانہ نگار تھا۔ منٹو نے ہلاکتوں کا اور بھی زیادہ مفارقت کے ساتھ جائزہ لیا۔ فیض کی طرح منٹو نے بھی کربناک واقعات کو عظیم ادب میں ڈھال دیا۔ منٹو نے کسی جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے پُرجوش مفارقت کے ساتھ لکھتے ہوئے 1947ء کے موسمِ سرما کو مکمل پاگل پن سے تعبیر کیا۔ منٹو کے نزدیک یہ انسانی فطرت کا بحران تھا اور اخلاقی روش و کردار میں زبردست گراوٹ تھی جس نے تقسیم بارے منٹو کی کہانیوں کی ساخت تشکیل دی۔ شمالی ہندوستان کو تقسیم سے چند ماہ قبل جس خوف نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اس نے اکثر لوگوں کو بری طرح متاثر کیا۔ منٹو کی کہانیاں اس صورتحال کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔
منٹو نے لاہور میں وفات پائی۔ اس وقت میری عمر گیارہ سال تھی۔ میری کبھی منٹو سے ملاقات نہیں ہوئی مگر ہمیشہ میری خواہش رہی ہے کہ کاش منٹو سے ملاقات ہوئی ہوتی۔ منٹو کی آخری تصاویر میں اس کی اداسی نمایاں ہے۔ وہ تھکا تھکا سا دکھائی دیتا ہے جو ناخوشی اوربگڑے ہوئے جگر کا نتیجہ ہے۔ پہلے کی تصاویر میں ایک شرارتی چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ روشن آنکھیں جن کی گستاخی موٹے چشمے کے باوجود نمایاں ہے، گویا اخلاق کے ٹھیکیداروں، دھرم وادی سیاست کرنے والوں اور ترقی پسند تحریک کے کومیساروں کا تمسخر اڑا رہی ہوں۔ لگتا ہے منٹو ان سب سے کہہ رہا ہو ’جتنا برا کر سکتے ہو، کرو۔ مجھے کوئی پروا نہیں‘۔ وہ ’سوشلسٹ حقیقت نگاری‘ کے نام پر دوسروں کو خوش کرنے یا طے شدہ اصولوں کی پاسداری میں قلم نہیں اٹھا سکتا تھا۔
تقسیم کے فوری بعد منٹو نے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ لکھا۔ یہ افسانہ لاہور کے ایک پاگل خانے کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ جب شہروں کے شہر مذہبی بنیادوں پر نسلی صفائی کاشکار ہو رہے ہوں تو پاگل خانے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ انتقالِ اقتدار کے ذمہ دار بیوروکریٹ پاگل خانے کے ہندو اور سکھ مریضوں کو بتاتے ہیں کہ انہیں زبردستی ہندوستان کے پاگل خانوں میں بھیج دیا جائے گا۔ پاگل خانے کے مکین بغاوت کر دیتے ہیں۔ وہ جانے پر تیار نہیں اور انہیں زبردستی ٹرک پر بٹھا کر ہندوستان روانہ کر دیا جاتا ہے۔ ان میں ایک سکھ بھی ہے جو اس قدر دل گرفتہ ہوتا ہے کہ پاک بھارت سرحد پر جان دے دیتا ہے۔ جب حقیقی دنیا میں اس قدر پاگل پن کا اظہار ہو رہا تھا تو منٹو کو پاگل خانہ نارمل محسوس ہونے لگا۔منٹو نے بعد ازاں لکھا:
”آج میرا دل افسردہ ہے۔ ایک عجیب سا اضمحلال اس پر چھایا ہوا ہے۔ چارساڑھے چار سال پہلے جب میں نے اپنے دوسرے وطن بمبئی کو خیر باد کہا تھا تو میرا دل اس طرح مغموم تھا۔ مجھے وہ جگہ چھوڑنے کا صدمہ تھا جہاں میں نے اپنی زندگی کے بڑے پُر مشقت دن گزارے تھے۔ ملک کے بٹوارے سے جو انقلاب برپا ہوا، اس سے میں ایک عرصے تک باغی رہا اور اب بھی ہوں لیکن بعد میں اس خوفناک حقیقت کو میں نے تسلیم کر لیا مگر اس طرح کہ مایوسی کو میں نے اپنے پاس تک نہیں آنے دیا۔“
فیض کا تعلق اس خطے سے تھا جو پاکستان بن گیا۔ منٹو نے ہندوستان سے یہاں ہجرت کی۔ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہونے والی امرتا پریتم (1919-2005ء) ان دونوں سے کم عمر تھی۔ امرتا پریتم کی پیدائش پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر گوجرانوالہ میں ہوئی مگر اس نے تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ امرتا کے والد ایک سکول میں پڑھاتے تھے اور مشقِ سخن بھی کرتے تھے۔ امرتا نے پنجابی (سکھوں کی مذہبی زبان) میں شاعری کی۔ امرتا کا پہلا شعری مجموعہ سترہ سال کی عمر میں ہی شائع ہو گیا اور اسے خاصی پزیرائی بھی ملی۔ وہ لاہور اور اپنے مسلمان دوستوں کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھی مگرتاریخ کے بے رحم دھارے نے اسے نئی سرحد کے پار پہنچا دیا۔ تقسیم کا موضوع امرتا پریتم کی تحریروں میں نمایاں رہا۔ تقسیم کے ہاتھوں گھائل امرتا پریتم نے وارث شاہ (1706-98ء) کو آواز دی۔ پنجاب کے اس پریمی صوفی کوّی کی ’ہیر‘ ناممکن محبت، پدرانہ جبر اور زبردستی کی شادی کا قصہ ہے۔ پنجاب کے دونوں حصوں میں اسے آج بھی بے حد پسند کیا جاتا ہے اور اسی تواتر کے ساتھ اسے سٹیج کیا جاتا ہے جس طرح شیکسپیئر کے کھیل۔ امرتا نے تقسیم کو ایک ایسے زہر کے طور پر پیش کیا جس نے مشترکہ ثقافت کو تباہ کر دیا:
اج آکھاں وارث شاہ نوں
کتوں قبراں وچوں بول
تے کتاب ِ عشق دا
کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی
توں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں
تینوں وارث شاہ نوں کہن
اٹھ دردمنداں دیا دردیا
تک اپنا پنجاب
اج بیلے وچھیاں لاشاں
تے لہو دی بھری چناب