تاریخ

محفوظ شدہ جزیرہ

طارق علی

(طارق علی کی کتاب’بنیاد پرستیوں کا تصادم‘ 2023میں شائع ہوئی۔ اس کا ترجمہ درجن بھر زبانوں میں ہوا۔ مسلم دنیا اور سامراج بارے اس کتاب کا اردو ترجمہ مدیر جدوجہد فاروق سلہریا نے کیا۔ اس کتاب کا ایک باب قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کیا جا رہا ہے)

بالی ایک لمبے عرصے سے ہندومت کے اثر میں تھا۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ آج بھی ہندومت کے زیرِ اثر ہے: مجمع الجزائر میں قرآن کی کشش سے متاثر نہ ہونے والا واحد جزیرہ اور ہاں وہ واحد جزیرہ جہاں ہندوؤں کی غالب اکثریت ہے۔ صدیوں سے بالی جائے پناہ اور ایک قلعے کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ قسطنطنیہ پر عثمانی قبضے کے کچھ ہی عرصہ بعد جوگ جکارتہ میں قائم ہندوسلطنت کا خاتمہ ہو گیا تو شاہی خاندان اپنے دربار او ر عملے، برہمن پنڈتوں اور علماء، موسیقاروں اور رقاصوں، شاعروں اور گلوکاروں سمیت بالی فرار ہوگیا۔ ذات پات کے شکار اس جزیرے پر نئے لوگوں کی آمد سے برہمنوں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگیا۔ بالی والوں کے بارے میں جو عام تاثر پایا جاتا تھا اس کے برعکس وہ خاصے جفاکش تھے، انہیں مجمع الجزائر کے گو رکھے کہنا مناسب ہوگا۔ جاوا میں بالی سے آئے ہوئے آباد کاروں نے اسلام قبول کیا ہو تو کیا ہو، یہ جزیرہ البتہ اسلام سے بچا رہا۔ کیوں؟ یہ کہنا زیادہ درست دکھائی نہیں دیتا کہ اس جزیرے کی ثقافت اس قدر ترقی کر چکی تھی کہ یہاں کائنات کی کوئی اور تشریح قابل قبول ہی نہ رہی تھی۔ آخر جاوا بھی تو لگ بھگ ایسا ہی تھا اور قبل از اسلام عہد کے سماٹرا بارے بھی یہ کہا جا سکتا ہے۔ تو پھر بالی کی اس انفرادیت کی وجہ؟ وجہ حسب معمول جغرافئے، ڈیمو گرافی، سیاست و تجارت اور اھل بالی کی بلاشبہ فوجی شجاعت کا امتزاج ہی قرار دی جا سکتی ہے۔ خطے میں باقی جگہوں پر اسلام نے تشدد کے بغیر فتح حاصل کی تھی۔ اھل بالی کی مزاحمت بھی دم توڑ دیتی اگر اھل یورپ نہ پہنچ گئے ہوتے۔
اس جزیرے کا ایک شاندار جائزہ جیفر رابنسن نے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کسی طرح 1920 کی دہائی میں کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے پریشان ہو کر نو آبادیاتی ولندیزی انتظامیہ نے بالی میں سماجی و ثقافتی پیوندکاری کا ایک عمل شروع کیا۔ ”روایت“ کے نام پر اس انتظامیہ نے پرانے حکمرانوں اور پنڈتوں کی طاقت کو بحال اور مضبوط کیا ساتھ ہی ساتھ ایسی نئی ثقافتی اور مذہبی رسومات تخلیق کرنے کی حوصلہ افزائی کی جن کے ذریعے طاقتور اونچی ذات کا تحفظ کرنا ممکن ہو۔ مقصد یہ تھا کہ منظم ولندیزی—— برہمن اشتراک کے ذریعے لگان سے اکٹھی ہونے والی رقم میں اضافہ کیا جاسکے اور مزاحمت کے امکانات میں کمی کی جا سکے۔ اس کے شدید نتائج برآمد ہوئے: بڑے پیمانے پر غربت، زمینوں سے محرومی، بے چینی اور جبر۔
ولند یزیوں کی موجودگی ایک اہم ٹکر روک کا کام دے رہی تھی ارادتاً ثقافتی/مذہبی سٹیٹس کو برقرار رکھے ہوئے تھی۔ بالی کے راجاؤں کو غیر بالی مسلمانوں کی آباد کاری پر کوئی اعتراض نہ تھا بشرطیکہ وہ ذات پات اور ریت رواج کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں۔ شمال میں کئی مسلمان دیہات ہندو اکثریت کے شانہ بشانہ موجود تھے۔
جاپانی قبضہ ہوا تو ایک نئی طرز پر سر پرستی شروع ہوئی: وہ نچلی ذات اور قوم پرست سوچ رکھنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ ان سیماؤں نے جزیرے کے سماج کو متاثر کیا اور 1965 تک، جب یہاں خون کی ہولی کھیل گئی، کسی حد تک سیاسی اتحاد انہی خطوط پر استوار ہوتے رہے۔ اس وقت تک پی کے آئی اس جزیرے پر دوسری بڑی قوت بن چکی تھی اور سیاست واضح حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ زرعی اصلاحات نے طبقاتی تفریق کو جنم دیا تھا۔ بالی کے مذہبی (ہندو، مسلم، عیسائی) پیشواؤں نے اتحاد بنا لیا اور اس بات پر اصرار کرنے لگے کہ مذہبی مقامات سے وابستہ زمینوں پر زرعی اصلاحات لاگو نہ کی جائیں۔ یہ گویا عیسائی/ مسلم/ہندو متحدہ محاذ تھا۔ اس کے زمیندار حاجیوں اور علماء نے پی کے آئی کے دباؤ تلے بظاہر یہ کیا کہ فالتو زمین کسی مسجد یا مدرسے کے نام وقف کر دی اور خود کو اس وقف کی مجلس عاملہ کا رکن نامزد کروا لیا۔ گنتورکے مشہور مدرسے کے لئے وقف زمین میں 1962-65ء کے عرصے میں دس گنا اضافہ ہوا (ان دنوں یہ واحد مدرسہ تھا جو عربی کو بطور روز مرّہ کی زبان نافذ کرنا چاہتا تھا)۔ امیر حاجیوں اور علماء پر تنقید تو آسان تھا البتہ مذہبی مقامات پر تنقید مشکل تھی کیونکہ ان پر تنقید کا مطلب تھا مذہب کی شدید مخالفت۔ مسلمان عوام مساجد اور مدارس کی حفاظت کے لئے تو سامنے آکھڑے ہوتے البتہ بعض علماء اور حجاج کے سلسلے میں یہ ممکن نہ تھا۔ یوں مذہب اور زمین کے تنازعات آپس میں پوری طرح گڈمڈ ہو کر رہ گئے۔
اورقتل عام سے دو سال قبل قدرتی آفت نازل ہوئی: جزیرے پر راج کرنے والا آتش فشاں پہاڑ گن انگ آگنگ جوش سے پھٹ پڑا اور لاوا 25000 افراد کو بہا کر لے گیا۔ برہمن اور ملاں اسے دیوتا/ اللہ کا قہر قرار دینے لگے جو زمین پر قدرت کے بنائے ہوئے نظامِ زندگی میں انسانی مداخلت کے باعث نازل ہوا تھا۔ بالی کے کئی باشندوں نے اسے بدشگونی سمجھا۔
بالی میں ہونے والے قتل عام کی وجہ محض مذہبی جنون نہ تھا، اس کے پیچھے زرعی اصلاحات اور فصل کی بٹائی بارے قوانین پر اشتعال،پیچیدہ قبائلی وفاداریاں اور طبقاتی تفریق ایسے عناصر بھی کار فرما تھے۔ فرینکفر تر الگیمین زیتنگ کے ایک خصوصی نامہ نگار کے مطابق لاشوں کے انبار لگے تھے، دریا خون سے سرخ ہو چکے تھے، ادھ جلے دیہاتوں میں خوف کے مارے کسان جھونپڑیوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ خوف کے اضطراب کی کیفیت بیان کرتے ہوئے نامہ نگار بتاتا ہے کہ بہت سے ہندو جن پر کمیونسٹ ہونے کا شبہ گزرتا تھا، لوٹ مار کرتے سپاہیوں اور اسلامی رضاکاروں کے ساتھ مل کر پی کے آئی کے مبینہ حامیوں کو قتل کرنے لگے تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ ان کا پی کے آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں پی کے آئی کے انتشار انگیز سماجی پالیسوں سے نالاں ہندو پنڈتوں نے فوجی دستوں کا ساتھ دیا۔ انہوں نے نام اُگلے، فوجیوں کو خفیہ جگہوں تک لیکر گئے اور اس قتل و غارت کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے یہ قربانی ضروری تھی۔ چھ ماہ کے عرصے میں دس لاکھ لوگ موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے، شائد اس سے بھی زیادہ۔ صرف بالی میں 150000افراد مارے گئے۔ رابنسن کا استدلال ہے کہ تنازعے کی ایک کلیدی وجہ کا تعلق انقلاب کے وقت سے تھا، 1950ء کی دہائی میں پی کے آئی کارکن بننے والے کئی افراد ایسے تھے جو 1940ء کے دہائی میں ولندیزی مخالف قوم پرست تھے، پی این آئی (بعدازاں میگاوتی کی پی ڈی آئی پی) میں ان کے حریفوں نے مخالفوں کے ساتھ ساز باز کر لی۔
دسمبر 1965ء کے اختتام تک پولیس کے کھاتوں سے 70,000نام مٹائے جا چکے تھے جبکہ 100,000 پی کے آئی ارکان کو دایا مانکن یا ’محفوظ بنایا‘ جا چکا تھا جبکہ 40,000 موت کے منتظر تھے۔ ہلاکتوں کی رفتار سے غیر مطمئن سہار تو نے اپنے پسندیدہ بدمعاش سر وہ ایدھی کو ایک مضبوط کمانڈو دستے کے ہمراہ روانہ کیا تاکہ وہ اس معاملے کو جلد از جلد نپٹا دے۔ اس نے نپٹا دیا۔ جنوری 1966ء کے اختتام تک پورے جزیرے کی مکمل صفائی ہو چکی تھی اوراسے ’محفوظ بنایا‘ جاچکا تھا۔ تین ماہ کے عرصے میں بالی کے درجن بھر سے زائد دیہاتوں میں آدھی آبادی ختم کر دی گئی۔واشنگٹن کی طرف سے کوئی احتجاج ہوا نہ کینیڈا کی طرف سے۔ یہاں اور لندن میں خفیہ اداروں کے سربراہ کام کو بخوبی سر انجام دینے پر بدھائیاں دے رہے تھے۔ باقی جگہوں پر خاموشی تھی۔ البتہ کینیڈا کے سفارت کار جو عالم—— شاعر بن گئے اپنی نظم ”جکارتہ آمد: دہشت بارے ایک نظم“ میں ”قاتل ہواؤں“ کے بکھر جانے بارے تنبیہہ کرتے ہیں:
ہم میں سے لیکن کسی کو تجربہ نہ ہوا
سرایت پذیر اس بُوئے موت کا
ان ناقابلِ عبور دریاؤں کا
جو لاشوں سے اٹے ہوئے ہیں
رابرٹ لوئل اسی لئے
تمہارے ایسا آہنسا کا پر چارک بھی
کچھ کہہ نہیں پاتا ہے؟
یا اے مہرباں قاری
آؤ ذرا بغور جائزہ لیں
ان وجوہات کا
جن کے باعث ہم یہ سب پڑھنے سے کتراتے ہیں
سمے کی طرح
ڈھلوان انگڈائن میں
ہم نے خاموش تو دے کو دیکھا
جو پہاڑ سے پھسل رہا تھا
کہ قاتل ہواؤں کی سرسراہٹ
پہلے بالوں اور ابرؤں میں
محسوس ہوتی ہے
ہلاکتوں کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اکثر ہلاکتیں دیہی علاقوں میں ہوئیں۔ شہر محفوظ جگہ تھے۔ وہاں غالب امکان یہی تھا کہ آپ جیل بھیج دیئے جائیں گے، شائد تشدد کیا جائے لیکن آپ کو جان سے نہیں مارا جائے گا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ این یو کی النصور نے اتنا نمایا ں کردار ادا کیوں کیا، این یو— روایتی اسلام کا حصہ ہے اور جاوا کے دیہات میں اس کا اثر ہے۔ اس بات کی بھی سمجھ آجاتی ہے کہ جدت پسندوں نے جن کا اکثر شہروں سے تعلق تھا، اتنے غیر نمایاں کیوں رہے گو آج کے انتہا پسند انہی کی ایک شاخ ہیں۔ اور بپھری ہوئی قاتل ہوانے پھر سے بالی کا رخ کیا۔

12 اکتوبر 2002ء کوبالی کے دو بار بم سے اڑا دیئے گئے جس میں 183 افراد ہلاک ہوگئے (جن میں 53کاتعلق آسٹریلیا سے تھا) اور ان دھماکوں کے ملزم اسی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے گو واشنگٹن میں چینی— بش— رمز فیلڈ جنتا کے دعووں کے برعکس اس کا القاعدہ سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا۔ واشنگٹن اور کینبرا کے زبردست دباؤ کے باوجود بالی پولیس کے مضبوط اعصاب والے پولیس چیف جنرل منگ کو پاستیکا نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ اس معاملے کا القاعدہ سے لازمی تعلق موجود ہے۔ اس خطے سے رپورٹ کرتے ہوئے بینڈکٹ اینڈرسن کہتے ہیں: ”12اکتوبر کے بالی بم دھماکوں کے بعد انڈونیشیا میں گھومتے ہوئے یہ بات قابل غور تھی کہ نجی گفتگو میں تو کبھی بھی نہیں البتہ پریس میں شاذ و نادر ہی کوئی واشنگٹن کے اس نظریئے کو تسلیم کرتا کہ یہ واقعہ القاعدہ کی کسی عالمی سازش کا حصہ تھا۔“(133)
اس کے باوجود مغربی میڈیا القاعدہ کی رٹ لگانے سے باز نہ آیا اور سی این این ڈاٹ کام ”ایف بی آئی ڈاکومنٹس“ کے حوالے سے اپنے ”ثبوت“ پیش کر رہا تھا۔ ایسے ہی مزید ثبوت ایک اور جانب سے پیش کئے گئے۔ پولیس جائنٹ سٹاف کے ڈپٹی ڈائریکٹر فار آپریشنز برگیڈئیر جنرل جمگھٹا کا کہنا ہے۔ ”کیا وہاں با آسانی روپوش ہونے کے لئے ٹھکانے موجود ہیں؟ میں شرط لگانے پر تیار ہوں۔“ اگر یہ بات درست ہے تو کیا القاعدہ کسی بھی ایسی حرکت کا ارتکاب کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرتی جس کے نتیجے میں سب کی توجہ اس طرف مبذول ہو جاتی۔ آخر ان کا مرکزی رہنما اسامہ بن لادن ہنوز ایف بی آئی اور دیگر تمام خفیہ اداروں کو ”زندہ یا مردہ مطلوب“لوگوں کی فہرست میں شامل ہے۔
سہار تو کے خاتمے کے بعد سے مغربی میڈیا میں انڈونیشیا کو زیادہ جگہ نہیں ملی۔ سفید فام افراد کی ہلاکتوں کا المیہ ہوا تو پھر سے اس ملک کا نام آیا لیکن شائع ہونے والے مواد کا سطحی پن اگر حیران کن نہیں تو تکلیف دہ ضرور تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1998سے بہت سے انڈونیشین جس تشدد کا شکار ہیں وہ 1965ء اور مشرقی تیمور پر حملے کی یاد دلاتا ہے۔ مسلمان اور عیسائی انتہائی پسندوں نے مولوکن کے شہر امون کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے: بیروت، گروزنی اور رملہ کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ بورنیو میں مقامی دائیک باشندوں اور مادووسی آباد کاروں میں جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جس میں اول الذکر کو فوج کے بعض حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔ سماٹرا کے صوبے آچے میں باقاعدہ خانہ جنگی جارہی ہے اور جان (ہزاروں لوگ) و مال کا بھاری نقصان ہو چکا ہے۔ فوج کے مختلف حلقے ایسی مختلف نجی فوجوں کی امداد اور تربیت کر رہے ہیں جو ملک کے بذات خود تشدد اور قتل و غارت میں مہارت حاصل کر چکی ہے اور وہ ان مظالم کی مشق مغربی پا پوا میں ایک چھوٹی سی آزادی پسند تنظیم کے خلاف کر رہی ہے جو اپنے ملک کو غارت گر ملٹی نیشنل اداروں سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن قزاقی اور بدمعاشی محض انڈونیشیا تک تو محدود نہیں۔ اس پس منظر میں بالی کے بم دھماکے کی کوئی ایسی اچنبھے کی بات نہیں۔ وہ مقامی سیاق و سباق سے میل کھاتے ہیں۔
25 نومبر 2002ء کو آسٹریلوی روزنامہ دی ایج نے میتھیو مور کا ایک مضمون بعنوان ’بالی بم دھماکوں سے القاعدہ کا تعلق مزید واضح ہو گیا‘ شائع کیا. انڈونیشیا میں پولیس کے سربراہ جنرل پاستیکا نے اس قسم کی خبروں کی طرف مسلسل تحقیر آمیز رویہ اپنائے رکھا۔ ملزم ان کے پاس تھے۔ ان کا تعلق جامعیہ اسلامیہ (ڈی آئی) سے تھا جو پاکستان کی جماعت اسلامی کی طرز پر قائم کی گئی ایک جماعت ہے۔ ڈی آئی کے سرکردہ عالم ابوبکر بشیر جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی سے متاثر تھے۔ پاکستان کی جماعت اسلامی نے البتہ ملک کے خالص دہشت گرد گروہوں سے خود کو با التزام علیحدہ رکھا ہے مگر اس کی انڈونیشین نقل اس سلسلے میں اتنی احتیاط پسند واقع نہیں ہوئی۔ عین ممکن ہے القاعدہ کے کارندوں سے ان کی کچھ غیر رسمی ملاقاتیں ہوئی ہوں۔ حال ہی میں انڈونیشیا کی حکومت نے کئی جرائم میں ملوث مقامی ملاّ جنبلی، کا نام لیا ہے جس نے بالی بم دھماکوں کے لئے سرمایہ فراہم کیا تھا۔ ا سکے پاس یہ رقم کہاں سے آئی؟ حسب معمول تشدد اور جوابی تشدد کی دھندلی دنیا میں ہنوز کچھ واضح نہیں۔
انڈونیشیا ایک لمبے عرصے سے مذہبی تشدد کا شکار ہے اور اس میں تمام مذاہب ہی ملوث ہیں۔ عین ممکن ہے ڈی آئی کے یہ بم شراب کے خلاف مقامی مہم کا حصہ ہوں یا بالی کو سیکس ٹورازم کے لئے استعمال کرنے کے خلاف چلائے گئے ہوں یا ایسی ہی کئی اور جوہات ہو سکتی ہیں۔ جو چیز اصل میں متاثر ہوئی ہے وہ اس جزیرے کی معیشت ہے: بالی کی آدھی سے زیادہ آمدن سیاحت سے ہوتی ہے۔ یہاں بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ایسی سستی جگہیں بھی ہیں اور مہنگے فائیو سٹار ہوٹل بھی جو ایک کمرے کا تین ہزار امریکی ڈالر و صول کرتے ہیں، یہ مہمان کو نجی تالاب فراہم کرتے ہیں اور مک جیگر اور باربراسٹری سینڈ ایسے کہنہ سال جیٹ سیٹرز کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس جزیرے بارے یہ ٹورسٹ امیج بیچ چوراہے کے تباہ ہو گیا ہے کہ یہ کوئی جنت کا ٹکڑا تھا— گویہ جزیرہ کبھی بھی جنت کا ٹکڑا نہیں رہا———اس تاثر کا بھرم سربازار کھل گیا ہے۔ بم چلانے والوں کی نیت کیا تھی یہ ہنوز ایک راز ہے البتہ ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا جس سے پتہ چلتا ہو کہ مقصد آسٹریلیا کو سزا دینا تھا۔
ادھر سیاسی پناہ حاصل کرنے والے حوالات کے حالات پر احتجاج کر رہے تھے ادھر آسٹریلیا کا طبقہ اشرافیہ خود ترسی میں مگن، اس کے رہنما دنیا کو یہ جتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ واقعہ چھوٹے پیمانے کا 9/11 تھا۔ وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔ باقی دنیا کے لئے یہ بہترگھنٹے کا معمہ تھا (یہ واقعہ اگر کینیا، پاکستان، نائیجیریا یا سوڈان میں ہوا ہوتا تو معمہ حل کرنے میں ایک دن کم لگتا) اور جلد ہی امریکی نیٹ ورکس سے غائب ہو گیا۔ آسٹریلیا کے رائٹ ونگ وزیر اعظم جان ہاورڈ نے کیونکر تصور کر لیا کہ ان کے ملک کو بھی ویسی ہی ہمدردی حاصل ہوگی جیسی عظیم ایمپائر کے حصے میں آئی تھی؟ انہوں نے کہا:
آسٹریلیا کی آئندہ تاریخ میں 12کتوبر 2002 ء ایک ایسے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب شیطانی قوت نے ناقابل بیان اور بلا امتیاز درندگی کے ساتھ ان معصوم آسٹریلین لوگوں پر وار کیا جو جائز طور پر سکون کے کچھ دن کاٹنے میں مصروف تھے اور جن کی معصومیت بارے کوئی شبہ نہیں اور ان کی موت اور زخموں کا سوگ منانے کے لئے ہم پوری آسٹریلین قوم کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔کئی لحاظ سے لفظ دہشت گردی اتنا مصفی ہے کہ اس واقعہ کے لئے استعمال نہیں ہوسکتا۔ یہ لفظ بہت تکینکی اور رسمی سا ہے۔ جو ہوا وہ بلا جواز بے رحمانہ سنگدلانہ قتلِ عام تھا۔

خود انڈونیشیا میں اس واقعہ کو ایک مختلف نقطہئ نگاہ سے دیکھا گیا۔ یہ ایک ایسے مجمع الجزائر میں چھوٹا سا المیہ تھا جہاں د وسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام کے بعد سب سے بڑا قتل عام ہوا تھا اور آسٹریلیا کے کسی ایک سرکاری اہل کار کو 1965ء میں ہونے والے واقعات کی مذمت کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ اپنا کوسا اپنے آگے آتا ہے۔
کیا کینبرا میں کبھی کسی نے پوچھا کہ انڈونیشیا آج اس حال کو کیوں پہنچا ہے؟ یہ تصنع کہ آسٹریلین معصومیت کی بے حرمتی ہوئی ہے، وہاں کے میڈیا اور سیاسی مباحثوں کا عمومی موضوع بن گیا۔ معصومیت؟ آسٹریلیا گزشتہ صدی کے ہر اہم تنازعے کا حصہ رہا ہے۔ اس کے شہری برطانوی سلطنت (پہلی اور دوسری جنگ عظیم) اور امریکی ایمپائر (کوریا، ویت نام، افغانستان اور بلاشبہ عراق) کے تحفظ کی خاطر چارے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ 1965-66ء میں انڈونیشیا اندر ہونے والے قتل عام کے سلسلے میں بھی آسٹریلیا معصوم تھا؟ کیا اس و قت بھی آسٹریلیا معصوم تھا جب اس نے مشرقی تیمور پر انڈونیشیاکے قبضے کا ساتھ دیا چاہے ان مظالم کی خبر دینے والے آسٹریلین صحافیوں کو سہار تو اور کسنجر کے سپاہی پکڑ کر ہلاک کر رہے تھے؟ آسٹریلیا پر حکمران سیاسی اشرافیہ پرانی شناخت میں مگن رہنا چاہتی ہے لیکن پچھلے پچیس سالوں میں یہ ملک ایسا بدلا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ اگر کوئی نہیں بدل سکا تو وہ وہاں کے حکمران ہیں۔
دریں اثناء انڈونیشیا میں ہر چیز ڈی ریگولیٹ کی جا رہی ہے۔ یہ ملک کل بھی عالمی اداروں کی ہدایت یافتہ معیشت سے وفادار تھا او رآج بھی ہے۔ پچھلی تین دہائیوں کی پالیسیوں کے مجموعی اثرات کا اب واضح طور پر جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سماجی، معاشی اور ثقافتی ڈھانچے بکھر رہے ہیں: سائیکارنو کے انڈونیشیا کی پر شکوہ عمارت کو جان بوجھ کر اور شعوری طور پر بارود سے اڑایا جا رہا ہے۔ مستقبل غیر یقینی ہے۔ تمام بڑے جزائر پر نئے المیے منڈلا رہے ہیں۔ دور، بہت دور سے قوم پرستی کے شروع شروع کے دنوں سے ایک پکار سنائی دیتی ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط میں ایک مخاصمانہ مغربی صحافی کے سوالوں کے جواب میں سہار تو چلا اٹھتے ہیں:

میں آپ کو بتاتا ہوں مجھے کس بات پر فخر ہے۔ بیس سالوں کے اندر اندر 7000 جزائر پر مشتمل اس ملک کو، سابانگ سے لیکر میراؤ کے تک، ریاستہائے متحدہ امریکہ سے وسیع رقبے پر پھیلے، مختلف ثقافتوں کے حامل لوگوں کو جو مختلف زبانیں بولتے ہیں اور جن کے مطالبے اور ضروریات بھی مختلف ہیں، میں نے ایک قوم بنا دیا ہے۔ اب وہ سب انڈونیشین ہیں۔ وہ میری طرح سوچتے ہیں …… ایک انڈونیشین کی طرح۔ وہ میرے ایسے جذبات رکھتے ہیں …… جو بطور انڈونیشین کلونیل ازم اور سامراج کو کسی شکل میں اپنے ساحلوں تک نہیں آنے دے گا۔کیا یہ فخر کی بات نہیں؟ …… کیا آپ کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کوئی بات دنیا میں حصولِ دولت سے زیادہ اہم بھی ہے؟ آپ ایسے لوگ کامیابی کو محض مادی پیمانوں سے ماپ سکتے ہیں۔ آپ محض معیشت بارے ہی سوچ سکتے ہو……(134)

کتنی سچی بات ہے!

Tariq Ali
+ posts

طارق علی بائیں بازو کے نامور دانشور، لکھاری، تاریخ دان اور سیاسی کارکن ہیں۔