خبریں/تبصرے

صحافی تنظیموں کا 16 جولائی کو آزادی صحافت اور میڈیا کارکنوں کے حقوق کیلئے احتجاج کا اعلان

محمد نواز طاہر

ملک میں تبدیلی کے نعرے سے تبدیل ہونے والی حکومت کے ایک سال سے کم عرصے میں ہر طرف مہنگائی اور بے روزگاری کا واویلا ہے۔ عام آدمی کے معاشی خوشحالی، سماجی بہتری، انصاف کی جلد فراہمی، پولیس کی اصلاحات اور سستی تعلیم کے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں۔

حکمران جماعت‘پاکستان تحریکِ انصاف کے حامی بھی واویلا کرتے بلکہ بعض تو بد دعائیں دیتے نظر آتے ہیں۔ مخالفین سیاسی انتقام کی دُہائی دے رہے ہیں۔ دیگر شعبوں کی طرح ذرائع ابلاغ کے کارکن بھی بْری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ میڈیا کارکنوں کی بڑے پیمانے پر بے روزگاری سے پیدا ہونے والے ہیجان کے دوران اخباری کارکنوں اور صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائیز کنفیڈریشن (ایپنک) کا سہ روزہ اجلاس پانچ تا سات جولائی اسلام آباد میں منعقد ہوا۔

خیال کیا جارہا تھا کہ میڈیا مالکان اس اجلاس سے پہلے ’پی ایف یو جے‘ کو توڑنے کے لئے اپنے خاص کارندوں کی مدد سے ایک اور حملہ کریں گے۔ لیکن اس حملے سے پہلے کارکنوں کو ایک دوسرے قسم کے حملے کا مقابلہ کرنا پڑ گیا۔ یہ ’حملہ‘ ٹی وی چینلوں کے اینکرز کو بعض امور پر پوچھ گچھ کے نام پر ہراساں کرنے اور سابق صدر آصف علی زرداری کے انٹرویو کی نشریات کوروکنا تھا۔ اس وجہ سے کارکنوں اور مالکان کے معاملات کے ساتھ ساتھ دونوں نمائندہ تنظیموں کو کارکنوں کے معاشی معاملات اورآزادی صحافت کو بھی ایجنڈے کا حصہ بنانا پڑا۔

میں تین روزہ اجلاس کی ساری کاروائی کا حصہ تونہیں تھا۔ البتہ دو روزہ اجلاس کے کچھ حصے کی کارروائی کا حصہ بنا اور خود کو جذباتی بلیک میلنگ کے سامنے بے بس پایا۔

’پی ایف یو جے‘ کا دستور ہمارے اکابرین نے انیس سو پچاس میں بنایا تھا۔ اس دستور میں کارکنوں کا نصب العین ملک میں آزادی اظہار رائے کے حق کا تحفظ بھی اسی طرح یقینی بنانے کے لئے جدوجہد لازم قرار دی گئی ہے جس طرح کارکنوں کے معاشی حقوق کے لئے۔ ان دونوں حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے کارکنوں نے معاشی قربانی کے ساتھ ساتھ جسمانی قربانیاں بھی دی ہیں۔ جیلیں کاٹیں، کوڑے کھائے، فاقے گلے لگائے اوراپنی نسل کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں اور حقوق سے محروم رکھا۔

’پی ایف یو جے‘ کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں جب فریڈم آف پریس اور کارکنوں کے معاشی حالات پر بحث ہوئی تو نوے فیصد رائے کارکنوں کے حقوق کے لئے تحریک چلانے کے حق میں تھی جبکہ دس فیصد کا خیال تھا کہ فریڈم آف پریس بھی ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔ یہ بحث جاری تھی اور تقریباً طے ہوچکا تھا کہ کارکنوں کے مفادات کو اولین ترجیح رکھا جائے گا اور فریڈم آف پریس کے تحفظ کے لئے بھی کردار ادا کیا جائے گا۔

یہ منصوبہ بنایا جا رہا تھا کہ اس ضمن میں سیمینار، مذاکرے اور کانفرنسیں کی جائیں جن میں ہر مکتبہ فکر کو مدعو کیا جائے۔ اس رائے کو بھی اہمیت دی گئی کہ میڈیا مالکان اور حکومتی یا دیگر گروہوں کی لڑائی میں کارکنوں کو بلا وجہ نہ جھونکا جائے بلکہ کارکنوں کے مفادات پر دھیان دیا جائے۔ اسی دوران ملک کی سابق حکمران جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر اور مسلم لیگ (ن) کی مریم اورنگزیب کے ساتھ شاہد خاقان عباسی بھی اظہارِ خیال کے لئے پہنچ گئے۔

ان دونوں جماعتوں کے قائدین کو باور کرایا گیا کہ انہوں نے اپنے ادوارِ حکومت میں کارکنوں کے تحفظ کے لئے کوئی ایسا کام (قانون سازی) نہیں کیا جس کی تحسین کی جاسکے۔ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے دونوں قائدین کے پاس۔ میاں نوازشریف نے ایک بار بھی میڈیا کارکنوں کے حقیقی نمائندوں سے ملاقات نہیں کی بلکہ ایسے لوگوں اور خوشامدیوں کے حصار میں رہے جن کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ کشتی ڈوبنے سے پہلے یہی ’روحیں‘ چھلانگ لگائیں گی اور شاہی گواہ بھی بنیں گی۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ”مزاحمتی سیاست کے ساتھ ساتھ مزاحمتی صحافت بھی ختم ہوچکی ہے۔“ حکومتی معاملات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ”جب گاڑی ڈرائیور کی بجائے پچھلے ڈبوں میں بیٹھے لوگ کنٹرول کررہے ہیں تو اس کا خوفناک حادثے سے دوچار ہونا لازم ہے۔“

انہوں نے کارکنوں کو یقین دہانی کروائی کہ کسی بھی جدوجہد میں پیپلز پارٹی صحافیوں کے ساتھ ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ”جمہوریت کاپہلا دفاع صحافت ہے۔ جمہوریت پر پہلا وار صحافت پر وار ہوتا ہے۔میڈیا کو دبانے سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے لیکن حکمران میڈیا کو دبا لیں یہ ممکن نہیں۔“

دونوں جماعتوں کے قائدین نے آزادی صحافت کے تحفظ کے لئے ملک گیر آگہی کانفرنسوں کا مشورہ بھی دیا۔’پی ایف یو جے‘ کا موقف بڑا واضح تھا کہ ’پی ایف یو جے‘ نے پارٹی پرچم کو دیکھ کر نہیں بلکہ سول اور غیر سول آمرانہ اقدامات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ مریم اورنگزیب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن تب تک میری دلچسپی ختم ہوچکی تھی۔

ان دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے اقتدار کے دوران کارکنوں کونظر انداز کیا اورفریڈم آف پریس اور کارکنوں کے معاشی تحفظ کے لئے کوئی جامع قانون سازی نہیں کی تو میں ان کے مشورے کس لئے سنوں؟ اور ان کے مشوروں پر تحریک چلاؤں؟ ننگے بدن، خالی پیٹ اور شدید گرمی میں تپتی سڑکوں پر کیوں نکلوں جبکہ انہیں اور ان کے قائدین کو ائیر کنڈیشنر میں بھی گرمی لگتی ہے۔

میں دیکھ رہا تھا کہ ہمارے ساتھی کارکن پسینے سے شرابور تھے۔ ان کے چہروں پر روزگار چھن جانے کے خوف کے سائے نمایاں تھے۔ جن کا روزگار چھن چکا، ان چہروں پر تو اور بھی اداسی تھی۔ ان کارکن صحافیوں کو اس بات سے دلچسپی تھی کہ ان کے نمائندے ان کے روزگار کے تحفظ کے لئے کیا لائحہ عمل بناتے ہیں۔

سیاسی قائدین اپنے مشورے دے کے چلے گئے۔ کارکنوں نے پھر سے اپنے مسائل کی طرف توجہ دی۔ اس بحث کے دوران خاص نکتہ یہ رہا کہ میڈیا مالکان نے کارکنوں کو بے روزگار کرکے مجموعی طور پر اپنی ہی طاقت میں کمی کی ہے کیونکہ جب بھی میڈیا پر ریاستی دباؤ آیا تو اس کا مقابلہ کارکنوں نے ہی کیا۔ اب جو کارکن بے روزگار ہوچکے ہیں وہ بھلا صحافت کی آزادی کے لئے سڑکوں پر کیوں نکلیں گے؟ یہ بھی درست ہے کہ اس آزادی سے کارکنوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا ماسوائے اس کے کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کیا اور فرض کی اس ادائیگی کے بعد خود ہی معاشی طور پر قتل ہوگئے۔

اجلاس کے دوران اینکر پرسنز کے رویئے بھی زیر بحث رہے اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ صحافتی فرائض کی انجام دہی کے دوران کسی پر ڈالا جانے والا دباؤ تو قابلِ مذمت ہے لیکن سوشل میڈیا پر کسی کی ذاتی رائے یا لڑا ئی پر کسی ’سخت‘ ردِ عمل کو صحافتی آزادی پر حملہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سہ روزہ اجلاس ختم ہوچکا۔ آگہی کانفرنسوں اور سولہ جولائی کو کارکنوں کے معاشی حقوق کے تحفظ اور آزادی ِصحافت کے لئے ملک گیر یومِ سیاہ منانے کا فیصلہ بھی ہوا۔ اجلاس میں ہونے والی کارروائی پر مختلف گروہوں اور حلقوں میں بحث جاری ہے۔

اس بحث میں اس بات پر اتفاقِ رائے پایا جارہا ہے کہ جس طرح ماضی میں ’پی ایف یو جے‘ اور’ایپنک‘ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ ریاست کے تمام اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی احتساب سے بالا نہیں‘ میڈیا مالکان، ججوں، جرنیلوں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس سمیت سب کا احتساب کیا جائے اور اس کی ابتدا ’پی ایف یو جے‘ اور’ایپنک‘ کی قیادت اور کارکنوں سے کی جائے۔

ان تنظیموں کو شفاف احتساب پر کوئی اعتراض نہیں۔ اگر کسی نے اپنے پیشے سے غداری اوراس مقدس پیشے کو بیچ کر ناجائز دولت کمائی ہے تو اس کے احتساب کی صورت میں اسے صحافت کی آزادی پر حملہ نہیں سمجھا جائے گا لیکن اگر کسی کے جائز پیشہ وارانہ عمل کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا تو یہ اقدام غلط ہوگا اور غلط کو نہ صرف غلط سمجھا جائے گا بلکہ اس کی بھرپور مزاحمت بھی کی جائے گی۔

کارکن یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری کسی سے بطور شخص، ادارہ یا حکومت کوئی ذاتی لڑائی ہرگز نہیں ہے۔ اپنے دستور کے تابع جدوجہد ہمارا فرض ہے اور وہ ہم اداکرتے رہیں گے۔ سبھی ریاست کا حصہ اور برابر کے حقوق رکھتے ہیں جس کا ریاست اور اس کے امور چلانے والوں کو بھی ادراک ہونا چاہئے۔

حکومت میڈیا کارکنوں سمیت تمام شہریوں کے حقوق کی محافظ ہے لہٰذا وہ اپنا یہ فرض ادا کرے تاکہ ملک میں مثبت تبدیلی آئے اور معیشت ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو۔

Nawaz Tahir
+ posts

نواز طاہر تین دہائیوں سے قلم کی مزدوری کر رہے ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے متحرک کارکن ہیں۔ انسانیت کو اپنا مذہب، جدوجہد کو عزم اور مزاحمت کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔