ذوہیب بٹ
وقت کے ساحلوں پہ بھٹکتے رہے
سولیوں پر کبھی جا لٹکتے رہے
واہموں سے نکل کر گماں تک گئے
روشنی کے نئے آسماں تک گئے
درد اپنا مسافر تھا چلتا رہا
صورتیں کیسی کیسی بدلتا رہا
ہم نوید فکر میں ہی بڑھتے رہے
کیسے کیسے خداوں سے لڑتے رہے
زندگی ہر قدم اپنی ہمراز تھی
موت اگلے زمانوں کی آواز تھی
وحشتِ دل کو اپنا جنوں دے دیا
آگہی کے لئے اپنا خوں دے دیا
ہم صلیبوں پہ لٹکے فقط اس لئے
حاکمِ وقت کا جبر ہے کس لئے
ہم نے نیزوں پہ اپنا ہی سر رکھ لیا
ہستے ہستے ہی امرت زہر چکھ لیا
جانے کیا کیا نظارے تھے تاریخ کے
کتنے پھیلے کنارے تھے تاریخ کے
آج تہذیب کے اس نئے دور میں
حاکمِ وقت سرمائے کے زور میں
شب کی تاریکیوں کو بڑھاتے ہوئے
وحشتِ جنگ کے گیت گاتے ہوئے
پھر ہمیں سے ہی کیوں مانگتا ہے جنوں
ایسا ہوتا ہے آخرتو ہوتا ہے کیوں؟
اب جنوں کی یہی ایک منزل ہے بس
ہم کو صدیوں کا یہ توڑنا ہے قفس!