محمد نواز طاہر
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی قیادت سب سے بڑے اور مزاحمتی سوچ رکھنے والے صوبے بلوچستان کو سونپے جانے کے بعد اب لگ رہا ہے کہ پی ایف یو جے میں معاملات کو سلجھانے کے بجائے لٹکانے کی ’پالیسی‘، جو چند سالوں سے جاری تھی، دم توڑ گئی ہے۔
مندرجہ بالا ’پالیسی‘ کا احسا س مجھے 2005ء میں (بحیثیت سینئر نائب صدر) ہوا تھا۔ اْس دو سال کے عرصے میں یونین کے معاملات سلجھائے نہیں، الجھائے جاتے رہے۔
میں اُن دوسالوں کی یونین کو ”خیبر میل ایکسپریس“ (جو پشاور سے کراچی تک تین صوبے میں چلتی ہے جبکہ پشاور سے جعفر ایکسپریس چاروں صوبوں سے گزرتی ہے) قراردیتا رہا ہوں یعنی اْس یونین میں بلوچستان کو نظر انداز اور ناراض کیا گیا جبکہ فیڈرل ایگزیکٹیو کونسل کے فیصلے کے باوجود معاملات سلجھائے نہیں گئے۔
اس کے بعد ہما علی کی قیادت میں منتخب ہونے والی یونین نے تنظیم کامفلوج جسم بحال کرلیا تھا بہر حال 2005ء میں جو سوچا تھا اْس پر 2019ء میں عملدرآمد ممکن ہوسکا کہ یونین کی قیادت بلوچستان کے سپرد کی گئی ہے۔
اس کا پہلا مثبت نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ معاملات پر سنجیدگی سے غور کرکے منصوبہ بندی شروع کی گئی ہے جس کے تحت اب پی ایف یو جے پانچ نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ آٹھ جنوری (آج) کے دن ملک گیر”یومِ مطالبات“ منارہی ہے۔
مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
میڈیا انڈسٹری میں معاشی بحران (معاشی قتل ِعام) کے حل کے لئے پارلیمانی کمیشن کا قیام، جبری نکالے گئے کارکنوں کی بحالی، تنخواہوں کی بروقت اجرت یقینی بنانا، سرکاری اشتہارات ویج ایوارڈ کے نفاذ سے مشروط کرنا اور اظہارِ رائے پر عائد دیدہ نادیدہ پابندیوں کا خاتمہ۔
تنظیم کے کارکنان اب تک یونین کے قائدین سے یہ سوال کرتے چلے آرہے ہیں کہ ہماری جدوجہد کا فائدہ کس نے اٹھایا؟ کارکنوں کو کیا ملا؟ ان کے سوالات جائز اور درست ہیں لیکن ایک بات ہم سب کارکنوں کو بھی سوچنی چاہئے کہ ہم تنظیم کی کال پر گھروں اور دفاتر سے کتنا باہر نکلتے ہیں اور احتجاج کا فرض دوسروں پر’فرض کفایہ‘ کے طور پر کیوں سونپ دیتے ہیں؟
جہاں تک کارکنوں کے سوالوں کا جواب ہے تو وہ سب کے سامنے کھلی کتاب ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا فائدہ میڈیا کارکن کو نہیں پہنچا، یہ آزادی میڈیا مالکان اور سیاستدانوں کو ہی ملی ہے جنہوں نے اس آزادی کوکارکنوں کے خلاف ہی استعمال کیا۔ کارکنوں نے سرکاری اشتہارات کے حصول کی جنگ لڑی اور اپنے معاشی حقوق کا تحفظ نہ کرسکے۔ سرکاری واجبات بھی مالکان کو دلوائے اور کارکنان خود ٹھنڈے چولہے تاکتے رہے۔
یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کارکنوں نے اپنے حقوق میڈیا مالکان سے لینے ہیں حکومت سے نہیں پھر حکومت سے لڑائی کیسی؟
حکومت سے لڑائی اس بات پر ہے کہ وہ قانون پر عملدرآمد کروانے میں کارکنوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی (ویسے حکومت کارکنوں کے ساتھ کیسے کھڑی ہو کہ جب بعض نمایاں کارکن صرف مالکان کیلئے سرکاری اشتہارات کی لڑائی لڑتے ہوئے گالیاں تک بکتے ہیں اور اپنا حق مارنے والوں کی ہی لڑائی لڑتے ہیں پھر اسے عام کارکن پسند بھی نہیں کرتا البتہ بعض اوقات اسے’نوکری بچانے‘ کیلئے بھیڑ بکری بن کر سیٹھ کا حکم ماننا پڑتا ہے)۔ یہ’کلچر‘ متعارف کروانے کا سہرا جنگ گروپ کے سر ہے جو درحقیقت موجودہ میڈیا کرائسس کا ماسٹر مائنڈ ہے جبکہ اس بحران کا مقصد ملک میں حقیقی اور دیانتدارانہ صحافت کا قتل ہے جوملک و قوم کے ساتھ ظلم ہے۔
اب جبکہ قیادت بلوچستان کے پاس ہے تو امید کی جارہی ہے کہ حقیقی مزاحمتی مٹی سے وہ تحریک جنم لے گی جس پر کارکنوں کو مکمل اعتماد ہوگا اور یہ نتیجہ خیز ہوگی لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ یونین ابتدائی طور پر کارکنوں کے چولہے جلانے کو ایجنڈا بنائے، باقی معاملات کو دوسرے درجے پر رکھے۔ کارکنوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ پی ایف یو جے اور ایپنک جس طرح ماضی میں میڈیا مالکان کے احتساب (موجودہ شکل منی ٹریل) کا مطالبہ کرتے رہے ہیں وہ مطالبہ بھی دہرائیں اور جن شہروں میں کارکنوں کا معاشی قتل ِعام کرکے صرف پرنٹنگ سٹیشن بنادیے گئے ہیں، ان اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ کرنے کا مطالبہ بھی اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل کریں تاکہ عام کارکن اور اربابِ اختیار پر بھی واضح ہو کہ کارکنوں کی یہ تنظیمیں مالکان کی’بی ٹیم‘ نہیں ہیں۔
سرکاری اشتہارات کے معاملے میں کارکن پارٹی بننا چھوڑ دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ایف یو جے کے آئین کے تحت کوڈ آف کنڈکٹ پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے۔ اس کی نفی کرنے والے عامل صحافیوں کے ساتھ ساتھ صحافی اینکرز اور ’صرف اینکرز‘ کو نہ صرف ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے بلکہ سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔ اگر یہ سب ممکن نہیں اور کارکنوں نے اپنے معاشی حقوق و صحافت کی بقا کے ساتھ ساتھ سیٹھ کے مفادات کا تحفظ بھی کرنا ہے تو یہ تحریک نہیں چلے گی۔
یہ سوچنا اور اس کے مطابق لائحہ عمل طے کرنا قیادت کی ذمہ داری اور فرض ہے۔