لاہور (جدوجہد رپورٹ) بی بی سی کے مطابق طالبان نے خواتین صحافیوں پر پابندی عائد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ کابل سمیت دیگر بڑے شہروں میں خواتین صحافیوں کے کام کرنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔
’بی بی سی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ایک خاتون صحافی کا کہنا تھا کہ ”میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار طالبان جنگجوکا سامنا کیا اور اس نے مجھے کہا کہ اپنا چہرہ ڈھانپ لو اور اپنے گھر جاؤ، ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”وہ ہرات میں خواتین پیش کنندگان کو تلاش کر رہے ہیں اوروہ کابل میں خواتین ٹی وی میزبانوں کو تلاش کر رہے ہیں۔“ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اب شدید خوف کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور اس کے بعد وہ روپوش ہو گئی ہیں لیکن طالبان کی جانب سے خاندان کو نقصان پہنچائے جانے کا خدشہ ابھی بھی باقی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ”بہت سے ٹی وی پروگراموں کو قرآن کی تلاوت کی فوٹیج سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔“ ہزاروں افغان ماضی کی طرح طالبان کی سخت گیر حکمرانی کی واپسی کے خوف سے ملک چھوڑنے کیلئے بے چین ہیں، خواتین کو اپنی قسمت اور کردار کے بارے میں خاص تشویش ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اس صورتحال کو افغانستان میں ’صنفی ایمرجنسی‘ کا نام دیا ہے۔