لاہور (جدوجہد رپورٹ) کابل میں وزارت خواتین کے سامنے ایک درجن سے زائد خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے، احتجاج کرنے والی خواتین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں عوامی زندگی میں خواتین کی شرکت کے مختلف مطالبات درج تھے، اس کے علاوہ خواتین کو ایک فعال کردار سے روکنے والے معاشرے کو بیمار معاشرہ قرار دیا گیا تھا۔
’اے پی‘ کے مطابق یہ احتجاج 10 منٹ تک جاری رہا۔ ایک شخص کے ساتھ ایک مختصر لفظی جنگ کے بعد خواتین کاروں میں سوار ہوئیں اور واپس چلی گئیں۔ گزشتہ دنوں میں طالبان جنگجوؤں نے خواتین کے کئی احتجاجی مظاہروں کو بذریعہ طاقت روکا اور ان پر تشدد کیا ہے۔
یاد رہے کہ جمعہ کے روز طالبان نے ’امور خواتین‘ کی وزارت کو بند کر دیا تھا اور اس کی جگہ ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ کی وزارت قائم کرتے ہوئے اسے اسلامی قوانین کے نفاذ کا کام سونپا گیا ہے۔ خواتین طالبان کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں اور خواتین کی وزارت کی بحالی سمیت خواتین کو تمام سماجی سرگرمیوں میں شرکت کی اجازت کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
حالیہ دنوں میں نئی طالبان حکومت نے خواتین سے متعلق متعدد فرمان جاری کئے ہیں۔ طالبان نے مڈل اور ہائی سکول کی طالبات کو بتایا ہے کہ وہ فی الحال سکول واپس نہیں آ سکتیں، جبکہ مڈل اور ہائی سکول کے طلبہ کو دوبارہ پڑھائی شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یونیورسٹی کی خواتین طالبان کو مطلع کیا گیا ہے کہ اب وہ مخلوط طریقہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گی، البتہ علیحدہ علیحدہ کلاس رومز میں تعلیم کی اجازت ہوگی، تاہم سخت ترین ڈریس کوڈ کی پابندی کرنا لازمی ہوگی۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے عبوری میئر نے اتوار کے روز کہا کہ کابل شہر کی حکومت میں خواتین ملازمین کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
شہر کی بیشتر خواتین کارکنوں کو اپنی ملازمتوں پر واپس آنے سے روکنے کا فیصلہ ایک اور علامت ہے کہ طالبان ابتدائی وعدوں سے منحرف ہو کر سخت ترین قوانین کو نافذ کر رہے ہیں۔ اپنے سابقہ دور اقتدار میں بھی طالبان نے خواتین کو سکولوں، نوکریوں اور عوامی زندگی سے روک کر گھروں کی چار دیواری تک محدود رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ادہر افغان بچوں نے بھی آن لائن مہم شروع کر دی ہے۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندیوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور ایک مقبول نعرہ ہے: ”میں اپنی بہن کے بغیر سکول نہیں جاوں گا“۔