(یہ نظم فیض احمد فیض نے سانحہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں لکھی تھی)
تہ بہ تہ دل کی کدورت
میری آنکھوں میں امنڈ آئی توکچھ چارہ نہ تھا
چارہ گر کی مان لی
اور میں نے گرد آلود آنکھوں کو لہو سے دھو لیا
اور اب ہر شکل و صورت
عالم موجود کی ہر ایک شے
میری آنکھوں کے لہو سے اس طرح ہم رنگ ہے
خورشید کا کندن لہو
مہتاب کی چاندی لہو
صبحوں کا ہنسنا بھی لہو
راتوں کا رونا بھی لہو
ہر شجر مینارِ خوں، ہر پھول خونیں دیدہ ہے
ہر نظر اک تارِ خوں، ہر عکس خوں مالیدہ ہے
موجِ خوں جب تک رواں رہتی ہے اس کا سرخ رنگ
جذبہ شوقِ شہادت، درد، غیظ و غم کا رنگ
اور تھم جائے تو کجلا کر
فقط نفرت کا، شب کا،موت کا
ہر اک رنگ کے ماتم کا رنگ
چارہ گر ایسا نہ ہونے دے
کہیں سے لا کوئی سیلابِ اشک
آبِ وضو
جن میں دُھل جائیں تو شائد دھل سکے
میری آنکھوں، میری گرد آلود آنکھوں کا لہو