لاہور (نامہ نگار) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے بائیں بازو کے رہنما اور حقوق خلق موومنٹ کے رکن پروفیسر ڈاکٹر عمار علی جان کی گرفتاری کیلئے جاری کیا گیا ڈپٹی کمشنر لاہور کا حکم نامہ معطل کر دیا۔ گذشتہ روز پٹیشن سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے حکومت کو پروفیسر ڈاکٹر عمار علی جان کی گرفتاری سے روک دیا گیا ہے۔ سترہ دسمبر کو آئندہ سماعت پر عمار علی جان کی پٹیشن پر بحث ہو گی جس کیلئے حکومت کو نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔
منگل کے روز چیف جسٹس ہائی کورٹ لاہور نے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بس میں ہو تو پوری اپوزیشن کو ایسے احکامات جاری کر کے نظر بند کر دیا جائے۔ عدالت نے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کی آئینی اور قانونی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ عمار علی جان کے خلاف اگر پہلے کوئی ایف آئی آر درج ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمار علی جان گناہ گار ہیں۔ پروفیسر عمار علی جان کی جانب سے حنا جیلانی، سلمان اکرم راجہ، اسد جمال، ایاز سندھو اور حیدر بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت کے باہر گفتگو کرتے ہوئے حنا جیلانی نے کہا کہ آج عدالت نے ایک عبوری حکم جاری کیا ہے اور حکومت کو عمار علی جان کی گرفتاری سے روک دیا ہے، انکی پٹیشن سماعت کیلئے منظور کر لی گئی ہے اور حکومت کو نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پٹیشن پر 17 دسمبر کو بحث ہو گی۔ عدالت نے حکم نامے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکم نامے کی آئینی و قانونی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
یاد رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر عمار علی جان کے خلاف 26 نومبر کو ڈپٹی کمشنر لاہور نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے انہیں 30 ایام تک گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ 27 نومبر کو طلبہ یکجہتی مارچ کے فوری بعد عمار علی جان کو گرفتار کرنیکی کوشش بھی کی گئی تھی جسے عمار علی جان کے ساتھیوں نے ناکام بنا دیا تھا۔ حکم نامے میں عمار علی جان کو امن عامہ کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ عمار علی جان عوامی مقامات پر احتجاج کے ذریعے عوام کو ہراساں کرتے ہیں جس کی وجہ سے نقص امن کا خطرہ ہوتا ہے۔
ماضی میں بھی عمار علی جان کے خلاف متعدد مرتبہ مقدمات قائم کئے جا چکے ہیں۔ حالیہ دنوں انہیں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ایک تقریب میں شرکت کرنی تھی لیکن یونیورسٹی میں ایک نامعلوم خط تقسیم کر کے عمار علی جان کو ملک دشمن قرار دیا گیا جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے وہ پروگرام منسوخ کر دیا تھا۔ ماضی میں عمار علی جان کو متعدد اداروں سے طلبہ کو سیاسی شعور دینے کی پاداش میں نکالا جا چکا ہے اور عوامی حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی وجہ سے انہیں قومی سلامتی کیلئے خطرہ، ملک دشمن اور غدار قرار دینے کی مہم بھی چلائی جاتی رہی ہے۔
عدالتی حکم کے بعد سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے اپنے ایک بیان میں عمار علی جان نے کہا: ”عدالتی حکم جمہوری قوتوں کی فتح ہے۔ عدالت نے نہ صرف میری گرفتاری کے احکامات معطل کئے بلکہ انہیں غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا۔ عدالت نے ماضی کے مقدمات کو بھی سیاسی انتقام کی مثالیں قرار دیا۔ حکومتی وکلا کے پاس ہمارے خلاف کوئی ثبوت یا دلیل موجود نہیں تھی۔ جن لوگوں نے ہم پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے اور قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہونے جیسے الزامات عائد کئے انہیں آج شرم آ جانی چاہیے“۔
انہوں نے اپنے وکلا کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا، احاطہ عدالت میں انکے ساتھ یکجہتی کیلئے آئے ہوئے پی ایس سی کے درجنوں نوجوانوں کا بھی شکریہ ادا کیا اور ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی۔
انکا کہنا تھا کہ آج کی عدالتی کاروائی اس بدعنوان نظام کے خلاف ایک فرد جرم ہے جس نے ہماری تحریک کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے، اتحاد اور تنظیم ہی ہماری واحد طاقت ہے۔ انہوں نے مزید کہا ”یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ ہماری تحریک اقتدار میں آنے والوں کیلئے خوف کی علامت اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کیلئے امید کی کرن بن رہی ہے“۔ انہوں نے نوجوانوں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ حقوق خلق موومنٹ اور پی ایس سی جیسے ترقی پسند گروپوں میں شامل ہو کر بدعنوان نظام کے خلاف مزاحمت کا حصہ بنیں اور عوامی حقوق کیلئے بغیر کسی خوف کے جدوجہد جاری رکھیں۔