فیض احمد فیض
انگریزی سے ترجمہ: قیصر عباس
غالب نے کہا تھا کہ زندگی اجزا کی ترتیب کا دوسرا نام ہے۔ شاید یہی ہم خوبصورتی کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں جو ہم آہنگی، یکسانیت اور توازن سے عبارت ہے، یا آپ اسے کوئی اور نام بھی دے سکتے ہیں۔
حسن کی مکمل ترین شکل قدرت کی نشانیوں میں بھی تلاش کی جا سکتی ہے، کسی انسانی چہرے میں، حسین نظاروں میں یا ستاروں بھری رات میں لیکن اس کی بیشتر صورتیں انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ یہ شہ پارے قدرت کے عطاکردہ ذہنوں کی ایجاد ہیں جو صداؤں، رنگوں، پتھروں، حروف، الفاظ، دھاگوں اور دھاتوں سے ایک نئی دنیا آراستہ کرتے ہیں۔ یہی خوبصورتی کی وہ نشانیاں ہیں جنہیں موسیقار، مجسمہ ساز، ماہر تعمیرات، شاعر، جولاہے، لوہار اور سنار اپنے ہنر سے چار چاند لگا دیتے ہیں۔ بائرن کی زبان میں ”حسن قدرت کی وہ موسیقی ہے جس کے تانے بانے عناصر کے اشتراک سے تشکیل پاتے ہیں۔“
خوبصورتی کسی چیزکی نفی نہیں
حسن کو بد صورتی کے تضاد کے طورپر نہیں دیکھا جا سکتا۔ موسیقی میں کسی لے کی کمی، بد نما رنگوں یا کسی غیر متوازن جسم کو خوبصورتی کا تضاد نہیں کہا جا سکتا۔ تاج محل کی طرح ایک بے مثل شاہکار، داغ کی کوئی غزل، موندریان کی مصوری یا مجسمے سے جھانکتا کوئی حسین چہرہ، یہ سب ہمیں جمالیاتی آسودگی تو دے سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ان سے ہمیں کوئی تحریک بھی مل سکے۔ ہمارے محسوسات پر خوبصورتی کا اثرجامد ہوتا ہے ہیجان خیز نہیں۔
خوبصورتی کا کوئی بھی شہ پارہ حیرت، کشمکش یا کھنچاؤ کا سبب نہیں بن سکتا۔ بیکن نے کہا تھا کہ ”ہر خوبصورت چیزمیں ایک انجانی دنیا کا احساس ضرور پایا جاتا ہے۔“
اس نئے پن کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا، کسی فارمولے کے تابع نہیں کیا جا سکتا اور کسی ضابطے میں نہیں لایا جا سکتا۔ یہ وہ جادوئی دروازہ ہے جو تخیل کی بپھری ہوئی موجوں ہی میں کھلتا ہے۔ یہ صرف ایک مبہم خیال ہی نہیں ایک منظم پیرایہ اظہار بھی ہو سکتا ہے۔ اسے آپ ایک متحرک تصویر (وہ حسین راہوں پر رواں دواں تھی)، محسوسات کی دنیا، تخیل یا پھر کوئی سائنسی فارمولا بھی کہہ سکتے ہیں۔
غور کیجئے تو انسانی چہرے کی دلکشی معروضی خوبصورتی کا عکس ہے لیکن اندرونی حسن کی مظہر بھی ہے اور یہ شخصیت ہی کے پرتو ہیں۔ آپ تاج محل کے ظاہری حسن کو دیکھ کر تعریف کر سکتے ہیں لیکن اس کا پس منظر جانے بغیر اس کی دلکشی کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے، لیکن بعض اوقات ظاہری حسن اور باطنی سچائیوں میں زمین آسمان کا فرق بھی ہوتا ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ ”یہ شخص کتنا خوبرو ہے“ تو صرف ظاہری خوبصورتی ہی آپ کے مدنظر نہیں ہوتی۔
یہ پاگل پن نہیں!
”پہلی نظر کا عشق“ میرے خیال میں پاگل پن نہیں ہے کہ اس میں نہ صرف ظاہری بلکہ شخصیت کے کچھ پوشیدہ پہلو بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ اس میں ایک اور پہلوبھی شامل کیجئے جس کا تعلق یادوں کے ان خزانوں سے ہے جو اکثر زندگی کی تلخیوں کو بھی مسرت میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ذہن میں حساس یادوں کا ذخیرہ کچھ مخصوص لمحوں کو ہی محفوظ رکھتاہے جیسے ایک حساس مصور اپنے ذہن میں بسی یادوں کو محدود رکھتا ہے اور اس کا شاہکار اکثر ان ہی صداؤں کی بازگشت بن کر ابھرتا ہے۔
تو پھر خوبصورتی ہے کیا؟ یہ ہم آہنگی اور آسودگی کی ایک شکل ہے اور ہیجان کی غماز بھی۔ یہ حقیقت کی طرح ظاہر بھی ہے اور چھلاوے کی طرح نظر وں سے اوجھل بھی۔ یہ لذت بھی ہے اور اذیت بھی، تجربہ بھی ہے اوریادداشت بھی، یہ ان سب اجزا کا مرکب ہے۔ ادراک اور جذبات کی آمیزش کا نام خوبصورتی ہے جو وقت اور روائتوں کے زیر اثر معدوم نہیں ہوتی اور نہ پرانی ہوتی ہے۔
نوٹ: ویو پوائنٹ، لاہور، 23 نومبر 1980ء