پرویز ہودبھائی
میں ڈاکٹریٹ آف لاکی اعزازی ڈگری دینے پر یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کا انتہائی ممنون ہوں اور ان تمام طلبہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جنہیں آج تعلیمی اسناد جاری کی جائیں گی۔ میرے پاس جو مختصر سا وقت ہے اس میں میری کوشش ہو گی کہ میں آپ کو قائل کر سکوں کہ مجھے اور آپ سب کو ایک بہتر دنیا کی نہ صرف امید رکھنی چاہئے بلکہ ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لئے جدوجہد بھی تیز کرنی چاہئے۔
یہ نکتہ اس لئے بھی اہم ہے کہ ان دنوں ہر طرف مایوسی کے بادل چھائے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر ا مودی، عمران خان، رجب طیب اردگان اور ان جیسے دیگر رہنماؤں کے ہوتے ہوئے سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کا مستقبل بارے خوفزدہ ہونا بجا ہے۔ اس خوف میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے جب سادہ لوح لوگ ان رہنماؤں کو دیکھ کر زور زور سے تالیاں پیٹتے ہیں۔
سگمنڈ فرائڈ نے 1915 ء میں کہا تھا: ”بنی نوع انسان کی قدیم، جنگلی اور بدی بھری خُو اب بھی ہر انسان کے اندر موجود ہے۔“ یہ سچی مگر کوئی اچھی خبر نہیں ہے کہ خود سر، نرگسیت سے چْور اور جنونی قسم کے افراد لیڈر بن کر نمودار ہو جاتے ہیں۔ اگر ایسے رہنماؤں کو انکے خود سر نظریات کے پرچار کا کھلا موقع دیدیا جائے اور ان کے خلاف مزاحمت نہ کی جائے تو آج جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی یہ امکان جنم لیتا ہے کہ ایسے رہنما ملکوں کے ملک بلکہ کرہ ارض ہی برباد کر کے ر کھ دیں۔
اچھی خبر البتہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان نے ہمیشہ برائی کی مزاحمت کی ہے اور بطور انسان ہمارے اندر خود غرضی سے زیادہ ایثار اور اشتراک کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ ہمارے جینز میں جو بد ترین عناصر موجود ہیں، جنہیں رچرڈ ڈاکنز سْوپر مالیکیول کہتا ہے‘ ان مالیکیولوں کے وجود کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اپنی افزائش نسل کرتے رہیں۔ خوش قسمتی سے ہم عقل و خرد کی طاقت سے اپنے جینز میں موجود ان برائیوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ کیمسٹری کے ممتاز پروفیسر اور میرے دوست جان ایونری نے تفصیل سے لکھا ہے کہ بنی نوع انسان میں مقابلے بازی کی نسبت تعاون کا جذبہ اوسطا ًزیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی معقول بات ہے۔ بصورت دیگر باہمی انحصار کی مدد سے چلنے والی عہد حاضر کی پیچیدہ تہذیب کسی صورت بھی نہ پنپ سکتی۔
اس کا مطلب گویا یہ ہے کہ آپ پر بھی اور مجھ پر بھی لازم ہے کہ ہم اپنے آدرشوں پر عمل پیرا ہوں اور اپنی سوچ و فکر کے مطابق اس دنیا کو بہتر بنانے کے لئے نئے نئے راستے ڈھونڈیں۔ برائی کے خلاف لڑائی کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ چاہے اسکی ہمیں بھاری قیمت ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔اس لئے میں کوئی بڑا دعویٰ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ مجھے جب کسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تو میرا ردِ عمل بالکل جبلی تھا۔
بطور نیوکلیئر طبیعات دان غالباً میرا پہلا فرض واضح طور پر یہی بنتا تھا کہ میں ایٹمی پاگل پن کے خلاف آواز اٹھاؤں۔ جب میں ستر کی دہائی میں اپنی پی ایچ ڈی کے سلسلے میں ایٹمی نیوکلیئس کے اندرونی نظام پر تحقیق کر رہا تھاتب سے میرا اعتقاد ہے کہ ایٹم بم ایک مکروہ بلا ہے اور قتل عام کا ایک وسیلہ ہے۔ ایٹمی تباہیوں کے خلاف اور پاک بھارت امن کے لئے کام کرنا میرے لئے ہمیشہ انتہائی اہم رہا ہے۔ اس سال کے شروع میں دونوں ملکوں کے مابین جو جھڑپیں ہوئیں ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں ملک پاگل پن میں ایٹمی تباہی کے دہانے پر ناچ رہے ہیں۔ اسی لئے یہ انتہائی اہم ہے کہ سرحد کے دونوں جانب ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے لئے جدوجہد جاری رہے۔
بطور ایک پیشہ ور طبعیات دان میں سائنسی کلیوں اور ریاضی کے سحر میں گرفتار رہتا ہوں۔ نہ صرف جدید دنیا ان کی پیدا وار ہے بلکہ انہی کے ترتیب دیے ہوئے پُرپیچ اصولوں کی مدد سے ہم پیچیدہ مگر مربوط کائنات کو سمجھ سکتے ہیں۔ ٹیلی وژن، ویڈیوز اور عوامی تقریروں کے ذریعے اس پیچیدہ کائنات کی تشریح اپنے ملک کے نوجوانوں کے سامنے پیش کرنا میری ایک عاجزانہ سی سعی رہی ہے۔
سائنس ایک دلفریب ٹروجن ہارس ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ٹروجن ہارس سے مراد کاٹھ کا وہ خوبصورت گھوڑا ہے جو یونانیوں نے ٹرائے کے شہریوں کو پیش کیا تھا مگر اس گھوڑے کے اندر یونانی سپاہی چھپے تھے جو اس گھوڑے کے اندر چھپ کر شہر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ سائنس بھی ٹروجن ہارس کی طرح دلفریب بھی ہے اور پر فریب بھی۔ اوپر سے سائنس جدید زندگی کو پر آسائش بنانے کا ایک وسیلہ دکھائی دیتی ہے البتہ اس کے اندرایک خنجر پنہاں ہے جو نامعقولیت کو چیر پھاڑ کے رکھ دیتا ہے۔
چند دہائیاں پہلے تک صاحبِ ادراک پاکستانی ہندوستان میں سیکولر اقدار اور مذہبی ہم آہنگی کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ دن خواب و خیال ہوئے۔ دونوں ملکوں سے مذہبی، نسلی اور طبقاتی تعصبات کا خاتمہ ایک طویل جدوجہد کا متقاضی ہے جو ان دونوں ملکوں میں آنے والی نسلوں کو کرنا ہو گی۔
پاکستان میں ہمیں ایک اور چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ ہمیں عسکری بالا دستی سے بھی مفر چاہئے۔ خوش قسمتی سے میں تو بچ نکلا مگر سب لوگ قسمت کے دھنی ثابت نہ ہو سکے۔ کئی ملک چھوڑ گئے مگر ہزاروں لا پتہ ہیں۔ آج تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ کے لئے میرا پیغام ہے کہ آپ کی رہائش مختلف ملکوں اور شہروں میں ہو گی۔ ہر جگہ کے تقاضے اور مسائل الگ طرح کے ہوں گے۔ کہیں جنگجو حکمران اورکہیں ایسا ظالمانہ سیاسی نظام جو حق کی آواز دباتا ہے۔ دوسری طرف اس کرہ ارض کو آلودگی اور موسمی تبدیلی سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک طویل اور کٹھن جدوجہد کرنی ہو گی۔
میں اپنی بات کا اختتام بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ہاورڈ زن کے قول سے کروں گا۔ ستر کی دہائی میں جب ویت نام جنگ کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو میں پروفیسر ہاورڈ زن کے عوامی لیکچر سننے ضرور پہنچتا تھا۔ ان کا کہنا تھا:
”ابتلا کے دنوں میں پرامید رہنا محض ایک رومانوی حماقت نہیں۔ اس امید پرستی کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ محض حشت و بربریت کی داستان نہیں ہے۔ انسانی تاریخ درد مندی، حوصلے، رحمدلی اور قربانی کی مثالوں سے بھی مزین ہے۔ ہم اس پیچیدہ تاریخ کے جس پہلو پر زور دیں گے وہی پہلو ہماری زندگیوں کا تعین کرے گا۔ اگر ہمیں فقط تباہیاں ہی نظر آئیں گی تو تبدیلی کے لئے ہماری صلاحیت جواب دے جائے گی۔ اگر ہم تاریخ کے اْن ادوار اور اْن مقامات کے بارے میں سوچیں (اور ایسی مثالوں کی کوئی کمی نہیں) جہاں لوگوں نے شاندار کردار کا مظاہرہ کیا تو ہمارے اندر ہمت پیدا ہوگی۔ اس طرح کم از کم دنیا کو ایک نئی سمت کی جانب گامزن کرنے کا امکان توپیدا ہو گا۔“
ہمارے پاس ارادے کی شکل میں صلاحیت موجود ہے۔ اپنے ارتقائی ماضی کے باعث ہم عقلیت تک رسائی رکھتے ہیں۔سائنس اور سائنسی انسان دوستی ہمیں وہ راستہ دکھاتی ہے جس پر چل کر ہم بچپن میں تھونپی گئی عقیدہ پرستی سے نجات پا سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے ایک دن ہم ایک ایسی تہذیب کی تشکیل میں کامیاب ہو جائیں گے جس کی بنیاد دردمندی اور عقل پسندی پر ہو گی۔ اس تہذیب کا محور یہ زمین ہو گی۔ اس خواب کی تعبیر تک ہمیں تحمل سے جدوجہد کرنا ہو گی۔