عافیہ ضیا
پاکستانی سیاست پر ایمان مزاری کے تبصرے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ سیاسی قیادت میں موجودایک ماں اور اس کی بیٹی کے بیچ میں روایتی دراڑ موجود ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ماں اور بیٹی کے مابین اختلاف کی نوعیت گھر کی چار دیواری تک محدود رہتی تھی۔ اس کا کبھی بر سرِ عام اظہار نہیں ہوا۔ لیکن ایمان مزاری اور شیریں مزاری کے مابین اختلافات کا سرِ عام اظہار ہوتا ہے۔ یہ امر قابلِ ستائش بھی ہے اور اس سے سیکھنے کی ضرورت بھی ہے۔
جب شیریں مزاری نے اپنے حالیہ دورۂ ایران کے دوران سر پر چادر اوڑھی تو اس عمل پر کچھ پاکستانی ناقدین نے شیریں مزاری کا مذاق اڑایا اور تضحیک کی۔ جس کے خلاف ایمان مزاری نے اپنے ایک تازہ مضمون میں جائز طور پہ اپنی والدہ کا دفاع کیا۔ ایمان مزاری نے البتہ اس مضمون میں ان تضادات پر بات نہیں کی جو شیریں مزاری کے چادر لینے کے حوالے سے فیمینسٹ سیاست کو درپیش ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایمان مزاری کے مضمون کا عنوان ُ ٹیلز آف ا سکارف‘ اصل موضوع کی اہمیت کو کم کرتا ہے۔ گو انگریزی میں چادر یا دوپٹے کا عمومی طور پر ترجمہ اسکارف ہی کیا جاتا ہے مگر اسکارف پردے، حجاب،برقعے، (ملایشیا اور انڈونیشیا میں پہنے جانے والے)کیرودنگ اور نقاب وغیرہ سے مختلف ہوتا ہے۔
ان کے درمیان اہم ترین فر ق تو تاریخی اور سیاق و سباق کے حوالے سے ہے۔ ان میں سے کچھ مقامی روایات کا حصہ ہیں اور کچھ مشرقِ وسطیٰ سے متاثر ہو کر اپنائے گئے ہیں جو اسلامی تجدید پسندی کی حالیہ لہر کے غماز ہیں (اس کی ایک مثال پاکستان میں لیا جانے والا’حجاب‘بھی ہے)۔
جو لوگ ’سیاسی طور پر درست موقف‘ لینے کا راگ الاپتے ہیں اوریہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ چیز وں کو محض سفید یا سیاہ(بائینریز) قرا ر نہیں دیا جا سکتا ان کی خدمت میں عرض ہے کہ بہت سی باپردہ خواتین کا کہنا یہ ہے کہ ان کے پردے کا مخصوص اسٹائل ان کی شناخت کا اظہار کرتا ہے۔
مختلف نوع کے پردے شناخت کے حوالے سے پائی جانے والی گہری تفریق کا اظہار ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ لباس کی چوکیداری نہیں ہونی چاہئے لیکن پردے کو محض کپڑے کا ایک ٹکڑا قرار دینا بھی درست نہیں۔ کیونکہ اس طرح سے آپ ان خواتین کی نفی کرتے ہیں جو کہتی ہیں کہ پردہ انہیں بااختیار بناتا ہے یا اپنے ساتھ جڑی سماجی اور مذہبی و ثقافتی اہمیت انہیں عطا کرتا ہے۔
میری رائے تو یہ ہے کہ پردے کو کتنے ہی باغیانہ یا تخلیقی انداز میں کیوں نہ پہنا جائے آخرِ کار یہ پدر شاہی نظام کومضبوط کرتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ایمان مزاری کا یہ کہنا درست ہے کہ جب نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم یا کوئی سفید فام عورت (یہاں جمائما گولڈ اسمتھ، ایوان رڈلے اور ایسی دیگر نومذہبیوں کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے) پردہ لیتی ہے تو اس پر خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی دیسی عورت پردہ کرے یا نہ کرے تو اس پر تنقید ہونے لگتی ہے۔
مذکورہ بالا صورتِ حال کی ہم اسلاموفوبیا کے نام پر بھی مخالفت کر سکتے ہیں۔ اسلاموفوبیا کے مسئلے پرتو تحریکِ انصاف سیاسی فائدہ بھی اٹھانا چاہتی ہے۔ لیکن ایرانی انداز میں ریاست کے ذریعے زبردستی پردہ کرانے اورمذکورہ بالا صورتِ حال (معلوم نہیں اسے کیا نام دیا جائے)میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔
ایمان مزاری کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ سوشل میڈیا پر شیریں مزاری کے چادر اوڑھنے پر جو بحث جاری ہے اس کا اصل ہدف پاکستان اور ایران کے قوانین ہونے چاہئے تھے جن کے مطابق ایران میں پردہ عورت پر پردہ مسلط کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔
یہاں ایک مشکل سوال تو یہ ہے کہ کیا عہدِ جدید سے قبل بنائے گئے مذہبی قوانین پدر شاہی سے متصادم ہو سکتے ہیں؟ اس طویل بحث کا یہاں موقع نہیں ہے۔ اصل مشکل تو یہ ہے کہ ایمان مزاری سوشل میڈیا پر سنجیدہ سیاسی بحث کی متمنی ہیں۔
ہم نے جب می ٹو یا عورت مارچ کے موقع پر ہیش ٹیگز، میمز اور سوشل میڈیا پر مزاح کے ذریعے مہم چلانے کی بات کی تھی تو مقصد تھا کہ جنسی تعصب کے رویوں کو چیلنج کیا جائے۔ اس وقت لیکن یہ وضاحت بھی کی گئی تھی کہ سوشل میڈیا کے ٹول جذباتی انداز میں ہی ہماری بات کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ ان ٹولز کے ذریعے حاضر جوابی اور شوخی طراری تو ہو سکتی ہے مگر سوشل میڈیا پر سنجیدہ نظریاتی بحث ممکن نہیں جو طویل بات چیت کی متقاضی ہوتی ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر نے ان ایرانی عورتوں کی بات نہیں کی جنہیں پچھلے دو سال میں حجاب اتارنے پر بیس بیس سال کی قید سنائی گئی ہے۔
تو پھر عورتوں کے حقوق ہوں، لاپتہ افراد ہوں، اسکالرز کو دھمکیاں ہوں،آزادی صحافت ہو یا اقلیتیں ہوں… ایران اور پاکستان میں کیا فرق ہے؟اس بابت دونوں ملکوں کا ریکارڈ ”قابلِ رشک“ ہے۔ اس قابلِ رشک صورتِ حال پر دونوں ملکوں کا باہمی موقف کیا ہو سکتا تھا؟
یہ بات درست ہے کہ شیریں مزاری یا کسی بھی عورت کا حق ہے کہ وہ پردہ کریں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ وہ پردہ نہ کرنے کے اختیار اور دیگر حقوق کی بات بھی کریں۔ (دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر بشریٰ عمران اپنے سفید برقعے میں ایران جاتیں تو ایرانی حکومت ان کے سفید برقعے کو احتجاج سمجھ سکتی تھی کیونکہ ’مائی اسٹیلتھی فریڈم‘ نامی تنظیم نے احتجاجی علامت کے طور پر سفید برقع پہننے کی اپیل کی ہے)۔