لاہور (جدوجہد رپورٹ) عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان پر یہ شرط عائد کر دی ہے کہ وہ کمرشل بینکوں میں موجود پبلک سیکٹر اداروں اور وزارت دفاع کے تمام بینک اکاؤنٹس بند کرے دے اور رقم مرکزی بینک کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے۔
’ٹربیون‘ کے مطابق اس مطالبے کا مقصد سیکڑوں ارب روپے حکومت کے کنٹرول میں واپس لانا ہے جو اس وقت وزارت خزانہ کی مختلف ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمرشل بینکوں کے پاس رکھے گئے ہیں۔
ٹربیون کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے میں تاخیر کی ایک وجہ آئی ایم ایف کا رواں مالی سال کے اندر ہی ٹریژری سنگل اکاؤنٹ II سسٹم شروع کرنے پر اصرار تھا۔ آئی ایم ایف یہ بھی چاہتا ہے کہ حکومت صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کی بجائے ٹیکس میں چھوٹ واپس لینے اور مزید ٹیکس لگانے کیلئے پارلیمنٹ میں فنانس بل پیش کرے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق وزارت دفاع، مسلح افوج اور پبلک سیکٹر اداروں بشمول آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پاس 50 ہزار بینک اکاؤنٹس ہیں جنہیں مالیاتی انتظامی اصلاحات کے دوسرے مرحلے میں بند کرنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ رواں سال دسمبر تک تمام باقی کمرشل بینک اکاؤنٹس کو بند کرنے کیلئے ایک فریم ورک تیار کیا جائے جو سرکاری رقم سے فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ فی الحال وزارت دفاع، پبلک سیکٹر ادارے اور کچھ خودمختار کارپوریشنز اب بھی کمرشل بینک اکاؤنٹس کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور رقم کو وفاقی حکومت کے دائرہ کار سے باہر لے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان ان اکاؤنٹس کو بند کرنے کیلئے مزید ایک سال کا وقت چاہتا ہے لیکن آئی ایم ایف تاریخ بڑھانے پر آمادہ نہیں ہے۔ حکومت نے اکاؤنٹس کو آئندہ سال فروری تک بند کرنے کی پیشکش کی تھی۔
ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے کے تحت حکومتی وزارتوں اور منسلک محکموں کے کمرشل اکاؤنٹس کو مئی 2021ء تک بند کرنا تھا۔ تاہم ان 6000 اکاؤنٹس میں سے صرف 4500 اکاؤنٹس ہی بند کئے جا سکے اور تقریباً 5 ارب روپے کا بیلنس فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں منتقل کیا گیا۔
یہاں تک کہ موٹر وے پولیس، اینٹی نارکوٹکس فورس، کسٹمز ڈپارٹمنٹ اور پٹرولیم ڈویژن کے زیر اہتمام کچھ بڑے اکاؤنٹس بھی اس سال مئی تک بند نہیں ہو سکے گیں۔