آج فیض احمد فیض کا 37 واں یوم وفات ہے۔ اس موقع پر اردو ادب کی جانی پہچانی محقق اور ادیبہ نعیم السحر صدیقی کا یہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔
نعیم السحر صدیقی
گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لئے
ہر ایک وصل خداوند کی امنگ لئے
کسی پہ کرتے ہیں ابر بہار کو قربان
کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دونیم
کسی پہ باد صبا کو ہلاک کرتے ہیں
ہر آئے دن یہ خداوند گانِ مہر و جمال
لہو میں غرق مرے غمکدے میں آتے ہیں
اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں
”دریچہ“ دنیا کی تمام قید و بند کے درمیان امید کی روشنی اور رجائیت کی ایک سبیل ہے۔ یعنی تمام راستے مسدود ہو گئے ہیں تو ایک دریچہ ہے جو آزادی کی امنگ پیدا کر رہا ہے۔ اندھیروں میں روشنی کا پیغام لا رہا ہے۔ دریچہ فیض کے یہاں بہت سارے تصورات ساتھ رونما ہوتا ہے مثلاً دریچے کے ذریعے ہی قید خانوں کی سلاخوں کے پیچھے رات اور دن کا اندازہ کرتے ہیں اور نہایت لطافت کے ساتھ اس کی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں ”بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے کہ تیری مانگ ستاروں سے سج گئی ہو گی“ اور پھر اسی طرح صبح کا تصور زنداں کے دریچے یا روزنوں سے چھن چھن کر اس طرح شاعر کے دل و دماغ کو بصیرت، لطافت اور سرخوشی سے روبرو کراتا ہے ”چمک اٹھے ہیں سلاسل تو دل یہ سمجھا ہے کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہو گی“۔ یہاں فیض کے ایسے ہی لطیف، بصیرت افزا اور ترقی پسند خیالات کی نمائندہ نظم ”دریچہ“ کا تجزیہ مقصود ہے جس کے تصورات فیض کی دیگر نظموں میں بھی وطن پرستی، انسان دوستی اور فکر و فہم کی کرنیں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ نظم ان مصرعوں سے شروع ہوتی ہے۔
گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لئے
ہر ایک وصل خداوند کی امنگ لئے
یہاں صلیب، مسیحا اور خون کے رنگ کو وصل خداوندی کے قدیم روایتی تصور کے ساتھ شعری پیکر اور محرک بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ ظلم و بربریت اور غارت گری کی اس قدیم رسم پرستی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مذہب کی آڑ میں قوم کے رہنما، مصلح اور حق پرستوں کے ساتھ اقتدار پرستوں کی طرف روا رکھے گئے۔ اسی بات کو فیض اپنی ایک اور نظم میں اس طرح کہتے ہیں کہ:
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر جھکا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
اسی جسم و جاں اور ضمیر کو شاعر کی نظریں دریچے میں قربان ہوتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ ”دریچہ“ جو نظروں کو آزادی بخشتا ہے اور دلوں کو غور و فکرپر مائل کرتاہے۔ اور جس کے عوض کتنے ہی مسیحااور چارہ گر، مفکر اور مصلح قربان ہوئے اور ان کی صلیبوں سے دریچوں کی سلاخیں بنا دی گئیں۔ (دریچوں یا کھڑکیوں کی حقیقی تصویر کو ذہن میں لائے بغیر ان صلیبوں سے سلاخیں بنانے کے شاعرانہ خیال کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ یعنی یہ کہ کھڑکیاں اور دریچے تو بنائے ہی اس طرح جاتے ہیں لیکن شاعر نے ان میں جڑی کیلوں کو قتل و خون کی علامت اور مسیحاؤں سے چھینی ہوئی صلیبیں تصور کر لیا ہے۔ یہ ایک بہت نادر خیال ہے جو شاعر کی وسعت فکر و نظرکے ثبوت فراہم کرتا ہے)۔
ظاہر ہے یہ ایسے شاعر کا تصور ہے جس کی زندگی کے زیادہ تر اوقات سلاخوں کے پیچھے قید خانے کی بند کوٹھڑیوں میں در و دیوار اور دریچوں کو دیکھتے ہوئے گزرے۔ یہ نظم فیض کے مجموعے ”زنداں نامہ“ میں شامل ہے جو منٹگمری جیل میں دسمبر 1954ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اور یہ مصرعے شاعر کے اس کرب کا احساس دلاتے ہیں جسے قیدکر کے دنیا کی تمام نیرنگینیوں سے محروم کر دیا گیا:
کسی پہ کرتے ہیں ابر بہار کو قربان
کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دونیم
کسی پہ باد صبا کو ہلاک کرتے ہیں
اب یہاں ابر بہار، مہ تابناک، سرمست شاخسارِ دونیم، باد صبا فطرت کا وہ عطیہ ہیں جن سے شاعر کو روحانی انبساط ہوتا تھا، جو فطرت کے پیغام کو شاعر کے گوش گزار کرتے تھے اور اس کے دل و دماغ کو ایک نیا نغمہ تخلیق کرنے پر مائل کرتے تھے، لیکن قید خانے میں اسے ان نعمتوں سے محروم کر دیا گیا۔ ان اصطلاحوں کے پردے میں انسانی زندگی کی وہ سادگی، معصومیت اور نزاکتیں بھی پنہاں ہیں جنہیں اقتدار پرستوں نے خاص طور سے شکار بنایا۔ اور یہ بھی کہ جب یہ دریچے بند کر دئے جاتے ہیں تو یہ تمام نیرنگینیاں ان کی سطح سے ٹکرا کر اپنا دم توڑ دیتی ہیں۔ اور پھر انہی کی مناسبت سے یہ خیال کہ:
ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہر و جمال
لہو میں غرق مرے غمکدے میں آتے ہیں
اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں
یعنی یہ نیرنگیناں ہر روز موت کا شکار ہوتی ہیں، اندھیرے میں غرق ہو جاتی ہیں لیکن مٹ مٹ کر زندہ ہوتی ہیں۔ اس نقطہ نظر کی پیش کش شاعر کی رجائیت کا ایک خاص انداز ہے جو اپنے دور کے محکوم انسانوں سے ہمت، مخالفت، بغاوت اور احتجاج کا مطالبہ کرتا ہے۔
بشکریہ: جوش بانی: ترقی پسند نظم نمبر، (مرتبین: اقبال حیدر، علی احمد فاطمی) جولائی 2010ء تا جون 2011ء