شاعری

جوش ملیح آبادی کی ایک نظم: آدھی رات کی پکار

 اقبال حیدر

یہ شب ہے شب ِ قہر چکاں جاگتے رہنا
جینا ہے تو خدام جہاں جاگتے رہنا

جس سے رخِ تہذیب پہ رقصندہ ہے سرخی
فتنے پہ ہے وہ جنسِ گراں، جاگتے رہنا

تم اونگھ بھی جاؤگے تو دامان تمدن
پھٹ جائے گے مانندِ کتاں، جاگتے رہنا

محصور ہے معمورہئ ترتیبِ خیالات
اے حلقہِ صاحب نظراں، جاگتے رہنا

تھم تھم کے چمکتے ہیں در و بام پہ ناوک
رہ رہ کے کڑکتی ہے کماں، جاگتے رہنا

آمادہئ پیکار ہے فوجِ خزف و سنگ
لرزاں ہے جواہر کی دکاں، جاگتے رہنا

جنباں ہے سر تاج محل، برق جہاں سوز
اے لشکریئ شاہِ جہاں، جاگتے رہنا

صوبوں میں کل ایک دوڑ تھی راہ سبقت پر
اب مشرق و مغرب ہیں دواں، جاگتے رہنا

اب خال و خط و رنگ پہ ہے جنگ کا آغاز
مردانِ رہِ امن و اماں، جاگتے رہنا

پھر خاتم ِ وحشت کو ضرورت ہے نگیں کی
الماسِ تراشانِ جہاں، جاگتے رہنا

اک چاپ ہے تاریک گزر گاہ میں شاید
اک سایہ ہے دیوار پہ ہاں، جاگتے رہنا

سَن سَن ہے خموشی میں کہ رن بول رہا ہے
فتنے ہیں دبے پاؤں رواں، جاگتے رہنا

جنباں ہیں پھر آفات، جہانِ گزراں پر
اعیانِ جہانِ گزراں، جاگتے رہنا

ہاں آنکھ نہ جھپکے کہ ہے پتھراؤ کی زد پر
یہ کارگہ شیشاں گراں، جاگتے رہنا

پھر محتسبِ شہر ہے آمادہئ شب خوں
اقطابِ خراباتِ مغاں، جاگتے رہنا

اے چنگ و رباب و دف و قلقل کے امینو!
اٹھنے ہی پہ ہے شورِ مغاں، جاگتے رہنا

ہاں، غم کدہئ جوش میں جاکر یہ پکار آؤ
اے قبلہئ رندان ِ جہاں، جاگتے رہنا

جوش کا نام آتے ہی متعدد رویے اور بے شمار گمراہ کن مفروضے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس لئے نہیں کہ جوش یا ان کی شاعری سے ان کو علاقہ تھا یا ہے بلکہ اس لئے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں جوش وہ واحد شاعر ہیں جن کی تنقید کے لئے بہت مختلف اور خصوصی پیمانے اور رویے وضع کئے گئے ہیں۔ جوش دراصل تھے ہی ایسے کہ اگر آپ ان کو نہیں جانتے الگ بات ہے لیکن اگر آپ ان سے یا ان کی شاعری سے متعارف ہو جائیں تو پھر ”ان کے ہو جائیں گے“ یا ”ان کے درپے ہو جائیں گے۔“ ان کا تخلیق کردہ ادب ’Compelling‘ اور ’Profound‘ ہے۔ وہ اس عمل کے داعی ہیں جو قوموں اور تہذیبوں کی زندگی میں صرف ایک بار آتا ہے مگر بڑی مشکل سے آتاہے۔ اسے آپ انہدام یا ’De-dogmatism‘ کہہ سکتے ہیں اور یہ تعمیری عمل کا ’Pre-requisite‘ (لازمہ) ہے۔ ہمارے مخصوص ماحول اور حالات میں جوش کو ”رد“ کر دینا زیادہ منا سب اور سود مند سمجھا گیا اور اب ہم تقسیم در تقسیم سے دو چار اور اپنے وجود سے دست و گریبان ہیں۔

جوش کی زیر نظر نظم میں تمام ایسے اشارے موجود ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نظم 57-1956ء کے لگ بھگ لکھی گئی ہے۔ جوش پاکستان منتقل ہو چکے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کا منظر نامہ یکسر تبدیل ہو رہا ہے اور طاقت کے بل پر قدروں کی پامالی کا جان لیوا عمل شروع ہو چکاہے۔

جوش سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور اپنی فطرت کے عین مطابق اس پر نہ صرف تبصرہ بلکہ بھرپور وار کر رہے ہیں مگر احساس بیگانگی ہے کہ انہیں کھائے جا رہا ہے۔ وہ پاکستان آ کر بالکل تنہا ہو چکے ہیں۔

جوش کی نظم کا تجزیہ کرنا بہت مشکل کام ہے کیوں کہ ایک طرف تو ان کا فن اطنات سے پرہیز نہیں اس کو اساس اسلوب سمجھتا ہے پھر یہ کہ ان کا اسلوب انتہائی زرخیز و گراں بہا ہے کہ ایک ایک نظم میں درجنوں نئی ترکیبیں، تخلیق پارے او ر حسی پیکر ہوتے ہیں کہ اگر ہر ایک پر تبصرہ کیا جائے تو مضمون ایک کتابچے کی شکل اختیار کر لے مگر حق تو یہی ہے کہ اس کا حق یہی ہے۔ بہرحال چونکہ یہ نظم غیر معمولی عصری آگہی سے مملوک اور مستقبل بینی کی انتہائی نمائندہ مثال ہے تو اس مضمون کی حد تک جمالیاتی حسن اور شعری محاسن پہ کم سے کم گفتگو کرتے ہوئے اس کی معنوی وحدت اور ماورائی (Transcendental) حسیت پہ گفتگو زیادہ کی جائے۔ پہلے ہی شعر سے ایک انتباہ اور دعو ت عمل قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ دوسرا شعر انتہائی لطافت سے خبردار کرتا ہے کہ ہدف کچھ اور نہیں ”تہذیب“ ہے، سونا تو درکنار اونگھنے کی بھی مہلت نہیں ہے۔ اب دیکھیں اگر آدمی کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہو اور اسلوب توانا اور متحرک ہو تو اطناب یقینا حسن بن جاتا ہے۔ معمورہئ ترتیب خیالات محصور ہو رہا ہے، آزادی خیال پر قدغن لگ رہی ہے، یہی وہ وقت ہے کہ صاحب نظر جمع ہو کر اس حصار کو توڑیں۔ اس کے بعد کے چار اشعار ہماری روایت کے جواہر پارے ہونے کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی نشاندہی کرتے چلے جا رہے ہیں کہ اچانک جوش نے ایک غیر معمولی سیاسی پیش گوئی کر دی کہ اب تک تو صوبوں میں مثبت مسابقت جاری تھی مگر اب ادھر تم ادھر ہم کا دور شروع ہو گیا ہے اور مشرق اور مغرب ایک دوسرے کے مقابل ہوں گے (ون یونٹ)۔

پھر ہم نے دیکھا کہ کیا ہوا اور اب کیا ہو رہا ہے۔ یہاں تک جوش نے تمام نشاندہی کر دی کہ خط و خال رنگ پہ جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس کے بعد کے تمام اشعار اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ تخلیقی وجدان جب اصل شعر کے قالب میں ڈھل جاتا ہے تو کتنا پر اثر ہو جاتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے حسن بیان نے گویا دل کا دروازہ باز کیا اور خیال کی سواری معنی کے دوش پر دل میں در آئی۔ کہتے ہیں ”پھر خاتم وحشت کو ضرورت ہے نگیں کی، الماس تراشان جہاں جاگتے رہنا“ اس ”خاتم وحشت“ کی تخلیقی جہت جو گل کھلاتی ہے اس کا کوئی حساب ہے اور پھر ”الماس تراشان جہاں“ کی بے پناہ ترسیلی قوت ہر مصرعہ بلکہ ہر ٹکڑا اپنی اپنی جگہ خون میں چٹکیاں لے رہا ہے۔ تاریک گزر گاہ میں چاپ ہے، دیوارپہ سایہ ہے، ماحول سن سن کر رہا ہے کہ فتنے دبے پاؤں دھاوا بول رہے ہیں۔ یہاں پھر جوش نے ایک بہت عجیب شعر کہہ دیاجس کا جمالیاتی حسن ایک بار پھر اس کی ماہیت سے تجاوز کر کے قاری کے شعور میں جاگزیں ہو تا ہے اور وہ شاعر کے تجربے کی صداقت سے فورا ً آشنا ہو جاتا ہے۔ کیا گراں بہا بندشیں ہیں۔ پہلے مصرعے کی حرکیت کا تو جواب نہیں: جنباں ہیں آفات جہانِ گزراں پر، اعیانِ جہانِ گزراں جاگتے رہنا۔

ایک طرف جہاں کی حرکیت اور دوسری طرف آفات کی جنبانی اگر اس کیفیت کو متصور کیا جائے ایک شش سمتی یلغار معلوم ہوتی ہے۔ کارگہ شیشہ گراں کو پتھراؤ در پیش ہے مگر یہ سب کیا دھرا محتسب شہر کا ہے جس کا مقابلہ خرابات مغاں کے سرفروش ہی کر سکتے ہیں۔ اب جوش اپنے نزدیک ترین گروہ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور علامتی زبان میں مذہبی برادری کے خلاف ہشیار رہنے کو کہہ رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کو اپنی ذات کو بھی آمادہ بیداری کرنا ہے۔ اس نظم کی معنوی فضا اتنی متحرک اور دل دوز ہے کہ آدمی کے احسان میں جذبہ عمل بیدار ہونے لگتا ہے۔ نظم کا جمالیاتی حسن احساس کو لطیف تر کر کے اس پر صیقل کا کام کرتا ہے نتیجتاً بہت سے فکری حوالے اور اساسی عقائد محض سوال بن کر رہ جاتے ہیں۔

جوش کیا کسی بھی ایسے شاعر جس کے کلام میں معنی کی صحت اور صلابت مرکزی حیثیت رکھتی ہو، پڑھنا اور پڑھانا سب سے مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ معنی یا کثرت معنی سے جو ابہام پیدا ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ عمیق ہوتا ہے۔ ہر لفظ کے ایک تو عمومی معنی ہوتے ہیں دوسرے اس کے خصوصی یا ”عین معنی“ جو شاعر یا ادیب چاہے کسی بھی زبان میں بھی ہو اپنی معنی کی ترسیل میں حد درجہ نجابت کا قائل ہو گا اس کے یہاں اکثر تواتر یا تکرار کا شائبہ بھی عین ممکن ہے۔ وہ اس لئے کہ اکثر قاری عمومی معنوں میں لفظوں کو قبول کر رہا ہے اور شاعر ان خصوصی معنوں میں ادا کر رہا ہے اور اسے بالکل تکرار یا تواتر محسوس نہیں ہو رہی۔ اس دشواری کا امکان نظموں میں زیادہ ہے بلکہ صرف نظموں میں ہی ممکن ہے۔ اس معنوی تفاوت کے لئے انگریزی میں ایک لفظ مستعمل ہے ’Nuances‘ جس کی سب سے عمدہ مثال رنگوں کے حوالے سے دی جا سکتی ہے۔ کسی بھی رنگ کو لیں اس کے مختلف ’Shades‘ بہ نظر غائر ایک سے لگیں گے یا یوں کہا جائے کہ اگر باریک بینی نہ ہو تویکساں لگیں گے مگر دراصل یکساں ہوتے نہیں ہیں۔ اب یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ لفظ و معنی کے وہ پارکھ اٹھتے نہیں تو کم ہوتے جا رہے ہیں۔

جوش کے سلسلے میں یہ پہلو انتہائی اہم ہے۔ ہم نے جوش کو سرسری کہہ کر محض لفظوں کا جادو گر کہہ کر انصاف نہیں کیا۔ نہ اپنے ساتھ نہ جوش کے ساتھ اور نہ ہی اردو ادب کے ساتھ۔

زیر نظر نظم میں کئی اشعار ایسے ہیں جن کی تفہیم انہی بنیادوں پر ہونی چاہئے حالانکہ یہ جوش کی ان معنوں میں نمائندہ نظم نہیں کہی جا سکتی مگر پھر بھی ہماری دیگر نمائندہ شاعری سے کہیں زیادہ معنوی اساس کی حامل ہے۔

بشکریہ: جوش بانی: ترقی پسند نظم نمبر، (مرتبین: اقبال حیدر، علی احمد فاطمی) جولائی 2010ء تا جون 2011ء۔

Iqbal Haider
+ posts

اقبال حیدر اردو نثر اور نظم دونوں اصناف کے معروف مصنف ہیں۔ پاکستان سے نقل مکانی کر کے کینیڈا آئے اور وہیں قیام پذیر ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں، کیلگری، کینیڈا میں اس شعبے میں ملازمت کی اور نجی کاروبار بھی شروع کیا۔’جوش لٹریری سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی جس کے تحت جوش، قمر رئیس، فیض اور مجاز پر بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد کر چکے ہیں۔ شاعری کے مجموعہ ”آسمان بھی ہے“ کے خالق ہیں۔ نثر میں بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ”نادیدنی ہوں جوش“ اور مضامین کے کئی مجموعے بھی شامل ہیں۔ کانفرنس کے مقالات پر مشتمل کتاب ”In Conjugation of Arts and Science“ کے مدیر بھی ہیں۔