لاہور (جدوجہد رپورٹ) سوڈان کے دارالحکومت خرطوم سمیت دیگر شہروں میں اتوار کے روز ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین اکتوبر میں ہونے والی فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
’اے پی‘ کے مطابق مظاہرین میں زیادہ تر نوجوان مرد اور خواتین شامل تھے، جو خرطوم اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے فوج کے قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین نے مکمل سویلین حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا۔
ان مظاہروں کی کال سوڈانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن اور مزاحمتی کمیٹیوں نے دے رکھی تھی، جو سابق آمر عمر البشیر کے خلاف بغاوت اور گزشتہ 3 مہینوں سے جاری مظاہروں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مظاہرین ڈھول پیٹتے آمریت اور فوجی بغاوت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے، مظاہرین نے سوڈانی پرچم اٹھا رکھے تھے جن پر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے مظاہرین کی تصاویر پرنٹ کی گئی تھیں۔
مظاہرین نے صدارتی محل کی طرف مارچ کیا، جہاں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔
مظاہروں سے قبل حکام نے خرطوم اور اومدرمان میں سکیورٹی بڑھا دی تھی، ہزاروں فوجیوں اور پولیس اہلکاران کو تعینات کر کے وسطی خرطوم کو سیل کر دیا گیا تھا۔ مظاہرین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ صرف دارالحکومت کے عوامی چوکوں میں جمع ہوں۔
سوڈان کی ڈاکٹرز کمیٹی کے مطابق مظاہروں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن میں کم از کم 78 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ نے دارالحکومت خرطوم میں گزشتہ ماہ 19 دسمبر کو ہونے والے احتجاج کی قیادت کرنے والے کارکنوں کی گرفتاریوں، جنسی تشدد اور اجتماعی عصمت دری کے الزامات بھی عائد کئے ہیں۔
جمہوریت کی حامی تحریک نے جرنیلوں کو اقتدار سے ہٹانے اور مکمل سویلین حکومت کے قیام پر اصرار کیا ہے۔ تاہم جرنیلوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک منتخب انتظامیہ کو اقتدار سونپیں گے اور انتخابات جولائی 2023ء میں ہونگے۔