خبریں/تبصرے

سیلاب زدہ پاکستان کو بنگلہ دیش سے سیکھنا چاہیے: اکانومسٹ

لاہور (جدوجہد رپورٹ) رواں سال جنوبی ایشیا میں غیر معمولی طو رپر بھاری مون سون نے تباہی مچائی ہے۔ مئی اور جون میں بنگلہ دیش اور شمال مشرقی بھارت کے کئی علاقے زیر آباد آئے، سیکڑوں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مون سون نے پاکستان کو تباہ کیا ہے، جہاں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اورکم از کم 14 لاکھ مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے۔

’دی اکانومسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق جب کوئی ایسی آفت آتی ہے تو صرف انسانی امداد فراہم کرنے کی ہی نہیں بلکہ مستقبل کیلئے سبق سیکھنے کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

اکانومسٹ کے مطابق، سیلاب زدہ ممالک نے کئی دہائیاں ایسے طریقے تیار کرنے میں گزاری ہیں، جن سے نقصانات کو کم کیا جا سکے، ان طریقوں کو دیگر ملک آسانی سے اپنا سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ طریقے تین زمروں میں آتے ہیں: بنیادی ڈھانچے کی ایڈجسمنٹ، ابتدائی وارننگ سسٹم اور تیز مالی ریلیف کیلئے موثر چینل۔ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش نے تینوں پر سبقت حاصل کی ہے۔

مضمون کے مطابق بنگلہ دیش نے اپنے نشیبی ساحلی علاقوں کو طوفانوں سے بچانے کیلئے سیلاب کے دفاع میں برسوں سے سرمایہ کاری کی ہے۔ ساحلوں کے قریب اور اندرون ملک دور دراز علاقوں کے رہائشیوں کو، جو مون سون سے متعلقہ سیلاب کے خطرے سے دوچار ہیں، حوصلہ افزائی فراہم کی ہے کہ وہ اپنے گھروں کو سیلاب سے زیادہ مزاحم بنائیں اور ایسا کرنے کیلئے انہیں رقم بھی دی گئی ہے۔ پناہ گاہیں اونچی زمین پر رکھی گئی ہیں اور ان میں صرف خواتین کیلئے سہولیات شامل کرنے اور جانوروں کو لے جانے کیلئے ترمیم کی گئی ہے، جس سے لوگ انہیں استعمال کرنے کیلئے جلد آمادہ ہو گئے۔

اکانومسٹ مزید لکھتا ہے: جہاں تک ابتدائی وارننگ کا تعلق ہے، محققین سیلاب کے دنوں کی پیش گوئی کرنے کیلئے گاؤں کی سطح تک موسم کا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔ لوگوں کو ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے اور مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر چھوڑ دیں اور تربیت یافتہ رضاکاروں کے ذریعے پناہ گاہوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ تیزی سے موبائل سے رقم کی منتقلی بیوروکریسی کے بغیر مالی مدد فراہم کرتی ہے۔

اس اقدامات سے بہت سی جانیں بچائی گئی ہیں۔ 1970ء میں جب بنگلہ دیش ابھی بھی پاکستان کا حصہ تھا، وہاں ایک بڑے طوفان میں 3 سے 5 لاکھ لوگ مارے گئے، اسی طرح کے طوفان سے 2020ء میں صرف 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

جریدے کے مطابق، بہت سارے ملکوں کو سیلاب سے بچاؤ میں سرمایہ کاری بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ 2010ء میں اچانک سیلاب سے 2000 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد پاکستان نے خود اپنے ابتدائی انتباہی نظام کو بہتر بنایا، جس سے موجودہ سیلاب کی ہلاکتوں کی تعداد کو کم کرنے میں مدد ملی۔ بہتر کیش ٹرانسفر نیٹ ورکس کو ان لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے میں مدد کرنی چاہیے جو روزگار کھو چکے ہیں۔

مضمون کے مطابق یہ واضح ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش کی حاصلات سے پوری طرح سے سبق حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایک وجہ موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرے پر توجہ دینے میں ہچکچاہٹ ہے۔

اکانومسٹ کا دعویٰ ہے کہ سیلاب کے خلاف جس طرح کی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی، اس سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان ایک گڑ بڑ کا شکار ہے، لیکن اس کی بڑی وجہ سیاست ہے۔ سیلاب نے ایک ایسے ملک کو متاثر کیا ہے جو پہلے ہی معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ عمران خان سیاسی پوائنٹس حاصل کرنے کیلئے تباہی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، جس سے حکومت کی امدادی کوششوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

اکانومسٹ کا کہنا ہے: پاکستان کی حالت زار بھی گلوبل وارمنگ کے وسیع اثرات کے بارے میں ایک مختلف قسم کی وارننگ فراہم کرتی ہے: چونکہ دنیا بھر میں آب و ہوا کے حالات بہت زیادہ بگڑ رہے ہیں، ان سے زیادہ سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے کا امکان ہے۔ حیران کن طو رپر بڑی تعداد میں لوگ آنے والی دہائیوں میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو سکتے ہیں، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ان کے شہروں اور دیہاتوں کو غیر آباد کر دیتی ہے۔ غریب اور بدتر متاثرہ ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں، جو ان کی وجہ سے نہیں ہوئیں، کیلئے معاوضہ دینے کے مطالبات زور سے بڑھنے کا امکان ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دنیا کی تمام تیاری اس کے نتائج کیلئے کافی نہ ہو۔

Roznama Jeddojehad
+ posts