خبریں/تبصرے

’سو فیصد‘: آرٹ کے ذریعے شناخت کی تلاش

سٹاک ہولم (جدوجہد رپورٹ) ان دنوں پاکستانی نژاد نارویجن اداکار، ڈرامہ نویس اور ہدایت کار ٹونی عثمان شناخت کے موضوع پر ”سو فیصد“ کے نام سے ایک ڈرامہ پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

اس تھیٹر ڈرامہ کاسکرپٹ کھرستیان لیکسلیت سترؤمسکاگ اور ٹونی عثمان نے مشترکہ طور پر لکھا ہے۔ یہ کھیل 13 اکتوبر کو اسلو کے رُومن اسٹیج پر پیش کر دیا جائے گا۔

روزنامہ ”جدوجہد“ نے ”سو فیصد“ کے متعلق جاننے کے لئے ٹونی عثمان سے فون پر بات چیت کی۔ ٹیلی فونک انٹرویو میں ”جدوجہد“سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ سٹیج پلے ایسے انسانوں کی کہانی ہے جو دنیا کی نظر میں کامیاب ہیں مگر وہ ذہنی خلفشار اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

ٹونی عثمان نے سٹوری لائن بتاتے ہوئے کہا: ”ڈرامے کا مرکزی کردار فاروق گھمن ایک کامیاب وکیل ہے۔ وہ دراصل خود وکیل نہیں بننا چاہتا تھا مگر اسکا باپ ریاض گھمن یہ چاہتا تھا کہ اسکا بیٹا وکیل بنے تاکہ شناخت کے حوالے سے سماج میں اعلیٰ درجہ حاصل کیا جا سکے۔ اب فاروق گھمن کا شمار ناروے کے بہترین وکلا میں ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ ایسے مشکل اور پیچیدہ مقدموں کی پیروی کرتا ہے جنہیں دوسرے وکیل اؤل تو لینے سے کتراتے ہیں اور اگر لینے کی ہمت کر بھی لیں تو عدالت میں مقدمہ ہار جاتے ہیں۔ ڈرامے کا دوسرا کردار ناروے کا ایک مقبول ماہرنفسیات (Psychiatrist) اوسمند ہارولدسن ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مشکل سے مشکل مریض کو صحت یاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور علاج کے لئے غیر روائتی طریقے اختیار کرنے کے تجربے بھی کرتا رہتا ہے۔ تیسرا کردار ایک ڈانسر ہے جسے آزاد کردار کہا جا سکتا ہے۔ وہ رقص کے ذریعے کہانی کی گہرائیوں کو آڈینس تک پہنچانے میں مدد گار ہو گا“۔

ٹونی عثمان جو اس ڈرامہ کے ہدایت کار ہیں نے کہانی کے متعلق مزید بتایاکہ فاروق گھمن نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے اور ذہنی سکون کی تلاش میں کئی طرح کے سوالات اُس کے دماغ میں ابھرتے ہیں۔ ”وہ اپنی ذہنی کیفیت کے متعلق نہ تو اپنی بیوی سے بات کرتا ہے اور نہ ہی دوستوں اور وکلا ساتھیوں سے کیوں کہ نفسیاتی اُلجھنوں کے بارے بات کرنا آسان نہیں ہے۔ ایسے میں کورونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہو جاتا ہے اور وہ مزید تنہائی کی وجہ سے شدید پریشان ہو جاتا ہے اور علاج کے لئے ناروے کے ایک شہرت یافتہ ماہر نفسیات سے رابطہ کرتا ہے۔ بہت زیادہ مانگ کے باعث ماہر نفسیات کے پاس وقت تو نہیں مگراس نے فاروق گھمن کی کامیاب وکالت کے چرچے سُن رکھے ہیں اس لئے وہ فاروق کی صحت کے متعلق ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے تھیراپی کے لئے وقت نکال لیتا ہے۔ اور یوں یہ دونوں ایک ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جہاں آزادی اظہار، حب الوطنی، جدیدیت، تنہائی، انضمام اور شناخت جیسے موضوعات پر بحث کرتے ہوئے لاشعوری طور پر تھیراپی سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ ایک موڑ پر معلوم ہوتا ہے کہ سائیکاٹرسٹ کی زندگی کے کچھ ایسے راز ہیں جو پہلے سامنے آناچاہیے تھے۔ پوزیشنیں اتنی تیزی سے بدلتی ہیں کہ لگتا ہے کردار مکمل طور پر بدل گئے ہیں اور یہ جاننا ممکن نہیں کہ کون معالج ہے اور کون مریض۔ اپنی شناخت کو تلاش کرنے کے لئے کون کس حد تک جا سکتا ہے؟“۔

اپنی ٹیم کے متعلق بات کرتے ہوئے ٹونی عثمان نے بتایا کہ فاروق گھمن کا کردار کرنے والے مانیش شرما اوسلو نیشنل اکیڈمی آف دی آرٹس سے اداکاری کی تربیت لینے کے بعد گذشتہ چار سال سے تھیٹر پر کام کر رہے ہیں اور جلد ہی چھوٹی اور بڑی سکرین پر جلوہ گر ہوں گے۔

ماہر نفسیات کا کردار کرنے والے کھنیوت ستین ڈنمارک سے اداکاری کی تربیت لینے کے بعد گذشتہ دس سالوں سے تھیٹر پر کام کر رہے ہیں۔ رقاص سدیش ادھانا ایک کوریوگررافر اور ڈانسر ہیں۔ انہوں نے کتھاکلی کی تربیت بھارت سے اور جدید اور عصری رقص میں بیچلر کی ڈگری ناروے سے لی ہے۔ بطور کوریوگرافر انہوں نے بھارت کی فلمی دنیا میں ”حیدر“، ”اُڑتاپنجاب“ اور ”رنگون“ جیسی فلموں سے اپنا ایک خاص مقام بنایا ہواہے۔ انہیں فلم ”حیدر“ میں بہترین کوریوگرافی پر نیشنل فلم ایوارڈ ملا تھا۔

ڈرامہ ”سو فیصد“ میں وہ بطور رقاص کام کر رہے ہیں۔ رقص کے مناظر پر بات کرتے ہوئے ٹونی عثمان نے بتایا کہ اس مقصد کے لئے فیض احمد فیض کی نظم ”یہ داغ داغ اجالا“ اور غزل ”گُلوں میں رنگ بھرے“، کو پاکستان کے معروف گلوکار عدیل برکی نے ایک انوکھے اور غیر روائتی انداز میں گا کر ریکارڈ کروایا ہے۔

”جدوجہد“ نے یہ جاننا چاہا کہ اس مقصد کے لئے فیض ہی کی شاعری کیوں تو ٹونی عثمان کا جواب تھاکہ فیض صاحب کا شناخت کے موضوع پر بہت کام ہے اور پاکستان کی پہلی کلچرل پالیسی انہوں نے ہی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لکھی تھی، اس کے علاوہ ان کی وہ سطر ”چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی“ سوچ کے عمل کو جاری رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

ٹونی عثمان نے آخر میں بتایا کہ فیض صاحب کی تحریروں کے حقوق اُن کے ورثا کے پاس ہیں اور وہ سلیمہ ہاشمی اور مُنیزہ ہاشمی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے فیض صاحب کی شاعری کو ”سو فیصد“ میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts