خبریں/تبصرے

افغانستان: ہیرات میں سینکڑوں خواتین مظاہرین پر طالبان کا وحشیانہ تشدد

لاہور (جدوجہد رپورٹ) اتوار کے روز افغانستان کے مغربی شہر ہیرات میں خواتین کے ایک جلوس کو طالبان جنگجوؤں نے تشدد کے ذریعے منتشر کر دیا۔ مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ انہیں طالبان فورسز نے مارا پیٹا اور ہوائی فائرنگ کر کے منتشر کرنے پر مجبور کیا۔

’عرب نیوز‘ کے مطابق جمعہ کے روز کابل کے ایک کلاس روم میں ہونے والے خود کش بم دھماکے کے خلاف سینکڑوں طلبہ احتجاج میں نکلے۔ یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب طلبہ امتحانات کی تیاری کر رہے تھے، دھماکے میں درجنوں طلبہ ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔

حملہ آور نے کابل کے ایک محلے میں تاریخی طور پر مظلوم شیعہ مسلم ہزارہ کمیونٹی گھر میں صنفی لحاظ سے الگ کئے گئے اسٹڈی ہال کے خواتین کے حصے میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔

اقوام متحدہ کے مطابق کم از کم 35 افراد ہلاک اور 82 زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر لڑکیاں تھیں۔ یہ اقلیتی گروپ پر حالیہ برسوں میں ہونے والا سب سے مہلک ترین حملہ تھا۔

اتوار کے روز سیکڑوں خواتین، جن میں زیادہ تر ہزارہ کمیونٹی سے ہی تھیں، نے اس حملے کے خلاف ہیرات میں احتجاجی مارچ کیا۔ احتجاج کرنے والی خواتین طالبات ’تعلیم ہمارا حق ہے، نسل کشی ایک جرم ہے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ہیرات یونیورسٹی سے صوبائی گورنر کے دفتر کی طرف جا رہی تھیں۔

تاہم سیاہ برقعوں اور اسکارف میں ملبوس خواتین مظاہرین کو بھاری تعداد میں مسلح طالبان نے دفتر پہنچنے سے روک دیا، طالبان نے صحافیوں کو بھی ریلی کی کوریج نہ کرنے کا حکم دیا۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق مظاہرین میں شامل واحدہ صغرہ نے بتایا کہ ’ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، ہم مارچ کرتے ہوئے صرف نعرے لگا رہے تھے لیکن انہوں نے ہمیں لاٹھیوں سے مارا اور ہمیں منتشر کرنے کیلئے فائرنگ کی، براۂ کرم ہماری آواز پوری دنیا میں پہنچائیں کیونکہ ہم یہاں محفوظ نہیں ہیں۔‘

اے ایف پی کو ملنے والی ایک فوٹیج کے مطابق طالبات کے ایک اور گروپ کو یونیورسٹی کیمپس سے ریلی نکالنے سے روک دیاگیا اور کیمپس کے گیٹ بند کر دیئے گئے۔

زلیخا احمدی نے کہا کہ ’ہم باہر جانے سے قاصر تھے، کیونکہ طالبان سکیورٹی فورسز نے یونیورسٹی کا مرکزی دروازہ بند کر دیا تھا، اس کے بعد ہم نے نعرے لگائے اور گیٹ کھولنے کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے ہوائی فائرنگ کر کے ہمیں منتشر کر دیا۔‘

فوٹیج میں مظاہرین کو ’دروازہ کھولو، دروازہ کھولو‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، جس کے بعد طالبان کا ایک رکن انہیں لاٹھی سے مارتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بعد طالبات کا یہ گروہ منتشر ہوتا دکھائی دیتا ہے، پس منظر میں گولیوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔

طالبان کے افغانستان کے اقتدار پر قبضے کے بعد خواتین مسلسل احتجاج کرتے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔ ماضی میں بھی احتجاج کرنے والی خواتین کو قید و بند، تشدد اور جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دارالحکومت کابل میں زیادہ تر خواتین احتجاج کی کوشش کرتی ہیں اور طالبان کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ تاہم ہیرات میں بھی اب خواتین کے احتجاج نظر آ رہے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts