لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایرانی پولیس نے تہران کی ایک بڑی یونیورسٹی میں طلبہ کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے، جبکہ ملک بھر میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
’بی بی سی‘ کے مطابق شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد ایک کار پارک میں پھنس گئی تھی، جسے سکیورٹی اہلکاروں نے گھیر لیا تھا۔
ایک ویڈیو میں طالب علموں کو گولیوں کی آواز کے ساتھ بھاگتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
حکومت مخالف مظاہرے 17 ستمبر کو اخلاقی پولیس کے ہاتھوں زیر حراست 22 سالہ خاتون کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے۔
نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ تقریباً 200 طلبہ اتوار کی سہ پہر کیمپس میں جمع ہوئے اور ’عورت، زندگی، آزادی‘ اور ’طلبہ ذلت پر موت کو ترجیح دیتے ہیں‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے مظاہرے جاری تھے، نعروں میں شدت بھی بڑھتی جا رہی تھی، زیادہ تر نعرے ملاؤں اور اشرافیہ کے خلاف تھے۔
تشدد دوپہر کے آخر میں اس وقت شروع ہو اجب سکیورٹی فورسز کیمپس میں پہنچ گئیں۔ فورسز نے آنسو گیس اور پینٹ بال فائر کئے، جس کے نتیجے میں طلبہ کارپارکوں میں سے ایک کی طرف بھاگ گئے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں طلبہ کے ایک گروپ کو کارپارک کے ذریعے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایاجا رہا ہے، جبکہ فورسز موٹر سائیکلوں پر تعاقب کر رہی ہیں۔
ایک اور ویڈیو میں لوگوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، گولیوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں اور ساتھ ہی ’مرگ بر خمینی‘ کے نعرے بھی سنائی دے رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق متعدد طلبہ کو مارا پیٹا گیا یا پیلٹ گن سے گولی ماری گئی، 30 سے 40 طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ یونیورسٹی میں کلاسیں پیر کے روز معطل کر دی گئیں اور حالیہ واقعات اور طلبہ کے تحفظ کو وجہ قرار دیکر آن لائن کلاسیں شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔
گزشتہ دو راتوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود تہران اور کئی دوسرے شہروں میں مظاہروں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ایران ہیومن رائٹس کے مطابق سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اب تک کم از کم 133 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں وہ 41 مظاہرین بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں بلوچ کارکنوں کا کہنا ہے کہ جمعہ کو جنوب مشرقی شہر زاہدان میں جھڑپوں میں ہلاک ہوئے تھے۔
ایرانی حکام نے مظاہرین کو فساد پسند قرار دیتے ہوئے سختی سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے۔ مظاہروں کو ایرانی سپریم لیڈر سمیت دیگر حکام غیر ملکی دشمنوں کی چال قرار دے رہے ہیں۔